کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 139
بات پر یقین کر لیتا ہے کہ مجھے وہی کچھ ملے گا جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرے لیے لکھ دیا ہے اور تمام مخلوق مل کر بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی، نہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کسی کو نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتی ہے تب اسے یقین ہو گا کہ نفع ونقصان اور کچھ ملنا نہ ملنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کرے گا، اسی سے مدد مانگے گا، اسی کے سامنے عاجزی و انکساری کا اظہار کرے گا، اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کرے گا۔ معبود کی عبادت تو اس لیے ہوتی ہے کہ وہ راضی ہو جائے اور مجھے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ پائے، بلکہ ہمیشہ مجھے اطمینان اور فائدہ حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے سوا دوسرے معبودوں کی مذمت بیان فرمائی ہے کہ وہ تو تمھیں نفع و نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں، پھر بھی تم ان کے عبادت گزار بنے ہوئے ہو! چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّٰه مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ﴾ [الأنبیاء: ۶۶] ’’کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھیں کچھ نفع پہنچا سکتے اور نہ تمھیں کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘‘ اسی طرح جو حقیقتِ ایمان سے ناآشنا ہے وہ مخلوق کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اس امید پر مقدم کرتا ہے کہ اس سے مجھے فائدہ پہنچے گا اور اگر میں نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی تو وہ مجھے نقصان پہنچائے گا۔ مگر جو حقیقت ایمان سے آگاہ ہے اور سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو وہ مخلوق میں سے کسی کی ایسی اطاعت یا نافرمانی کی پروا نہیں کرتا جس میں خالق کی نافرمانی ہو۔ اور ظاہر ہے کہ وہی حدودِ الٰہی کی پابندی کرتا ہے اور عُسر و یُسر، تنگی و خوش حالی میں اللہ تعالیٰ کی