کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 137
(( وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللَّہُ لَکَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلَی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللَّہُ لَکَ )) ’’اور خوب جان لو کہ اگر ساری امت مل کر تمھیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ نفع نہیں پہنچا سکتی مگر اسی قدر جس قدر اللہ نے تیرے لیے لکھا ہے اور اگر سب تمھیں کچھ نقصان پہنچانے پر جمع ہو جائیں تو وہ کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اسی قدر جس قدر تیرے لیے اللہ نے لکھا ہے۔‘‘ یہ اسی تقدیر پر اِعتماد کا ثمرہ ہے کہ انسان کو دنیا میں جو نفع و نقصان پہنچتا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اسے کوئی ایسی چیز ملے جس کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ نہیں فرمایا ہے اگرچہ ساری مخلوق اسے دینے کی کوشش کرے۔ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچتا تو منافقین بغلیں بجاتے کہ ہم نے تو اپنے بچاؤ کا پہلے سے انتظام کر لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰه لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللّٰه فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ [التوبۃ: ۵۱] ’’کہہ دیں ہمیں ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچے گا مگر (وہی) جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے، وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ اِیمان والے بھروسا کریں۔‘‘ غزوۂ احد کے اختتام پر منافقوں نے کہا کہ ہماری بات تو مانی نہیں جاتی ہم