کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 135
اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللّٰه زُلْفَى ﴾ [الزمر: ۳] ’’اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا اور حمایتی بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں:) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے، مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں اچھی طرح قریب کرنا۔‘‘ اس لیے اللہ کی عبادت میں کسی کو یہ سمجھ کر شریک کرنا کہ وہ ہمارا وسیلہ ہیں، اسی مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا کہ عبادت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس میں کسی لحاظ سے شراکت حرام اور جرم عظیم ہے۔ بزرگوں سے یہی مدد حاصل کرنے کے لیے ان کی نذر و نیاز اور ان کی قبروں پر چڑھاوے دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی حرام اور ناجائز ہے، چنانچہ صاحبِ دُرِ مختار لکھتے ہیں: ’’وَ اعْلَمْ أَنَّ النَّذْرَ الَّذِيْ یَقَعُ لِلْأَمْوَاتِ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَّامِ، وَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاھِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَنَحْوِھَا إِلٰی ضَرَائِحِ الْأَوْلِیَآئِ الْکِرَامِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ فَھُوَ بِالْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ وَحَرَامٌ‘‘ ’’خوب جان لو کہ اکثر لوگ جو فوت شدگان کے لیے نذر مانتے ہیں اور جو دراہم اور دیے اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں کے لیے لے جائے جاتے ہیں ان کے تقرب کے لیے تو یہ بالاتفاق باطل اور حرام ہے۔‘‘ علامہ ابن عابدین اس کی شرح میں اس کے حرام اور باطل ہونے کی وجوہات