کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 134
’’کیوں کہ مخلوق کا مخلوق سے مدد طلب کرنا ایسا ہے جیسے قیدی کا قیدی سے مدد مانگنا۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت نصیب فرمائے اور اپنا بندہ بنائے رکھے۔ یہ جو بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہم جو بزرگوں سے استعانت کرتے ہیں تو انھیں معبود سمجھ کر نہیں بلکہ انھیں واسطہ و وسیلہ سمجھ کر ان سے مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ ہماری سفارش کرتے ہیں تو ان کے ذریعے سے حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے۔ مگر یہ غلط فہمی اس بنیادی حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے کہ مافوق الاسباب میں کسی سے مدد طلب کرنا عبادت ہے اور عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی جائز نہیں، واسطہ یا وسیلہ ہدایت میں ہوتا ہے، انبیائے کرام یا دیگر اہل اللہ ہدایت میں وسیلہ ہیں۔ راہِ ہدایت کی راہنمائی انھی کے ذریعے سے ہے۔ وہی بتلاتے ہیں کہ عبادت کس طرح کرنی ہے اور کس کی کرنی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وسیلہ نہیں ہیں۔ مشرکینِ مکہ عبادت میں یہی وسیلہ سمجھتے ہوئے ہی فرشتوں کو اور لات و عزیٰ وغیرہ کو پکارتے تھے اور ان کی نذر و منت مانتے تھے۔ چنانچہ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّٰه مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللّٰه قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّٰه بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ [یونس: ۱۸] ’’اور وہ اللہ کے سوا اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں، کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں! وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے