کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 132
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں تشریف فرما تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دروازہ کھول دو اور آنے والے کو جنت کی بشارت دو۔ میں نے دروازہ کھولا، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے میں نے انھیں جنت کی بشارت دی۔ پھر ایک صاحب نے آ کر دستک دی تو آپ نے فرمایا: دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے، میں نے انھیں جنت کی بشارت دی۔ پھر ایک اور صاحب نے دستک دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دو اور اس پر بلویٰ ہو گا۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے جنت کی بشارت دی اور وہ بات بھی بتلا دی جو آپ نے فرمائی تھی (کہ تم پر بلویٰ ہو گا) تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اَللّٰہُمَّ صَبْرًا، وَ اللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ‘‘[1] ’’اے اللہ! صبر عطا فرما اور اللہ ہی مددگار ہے۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جب بلوایوں نے حملہ کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’لَا إِلٰہ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْتَعِیْنُکَ عَلَیْہِمْ وَ أَسْتَعِیْنُکَ عَلٰی جَمِیْعِ أُمُوْرِيْ وَ أَسْأَلُکَ الصَّبْرَ عَلٰی مَا ابْتَلَیْتَنِيْ‘‘[2] ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں تُو پاک ہے بے شک مجھ سے ظلم ہوا ہے، اے اللہ! میں ان پر آپ سے مدد کا خواست گار ہوں اور اپنے تمام معاملات پر اپنی مدد چاہتا ہوں۔ آپ نے جس طرح میری آزمایش کی ہے اس پر آپ سے صبر کا سوالی ہوں۔‘‘ یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے متبعین نے
[1] صحیح مسلم (۲۴۰۳). [2] نور الاقتباس لابن رجب.