کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 130
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وتروں میں جو دُعا پڑھتے تھے اس کے الفاظ ہیں: ’’اَللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَ نَسْتَغْفِرُکَ وَ نُثْنِيْ عَلَیْکَ ۔۔۔ الخ‘‘[1] ’’اے اللہ! ہم آپ سے مدد چاہتے ہیں اور ہم آپ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور آپ کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔‘‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے بیٹوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے خون آلود کپڑے پیش کیے تو انھوں نے فرمایا: ﴿فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللّٰه الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ﴾ [یوسف: ۱۸] ’’پس (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو انھوں نے اپنی بات کرتے ہوئے یہی فرمایا میں وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا: ﴿وَاللّٰه الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ ﴾[2] فرعون نے جب بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا عزم ظاہر کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا: ﴿اسْتَعِينُوا بِاللّٰه وَاصْبِرُوا ﴾ [الأعراف: ۱۲۸] ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے: (( اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ إِلَیْکَ الْمُشْتَکَی وَ أَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَ بِکَ الْمُسْتَغَاثُ وَ عَلَیْکَ التُّکْلَانُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ )) [3]
[1] قیام اللیل للمروزي (ص: ۲۳۱، ۲۳۲). [2] صحیح البخاري (۴۷۵۰) وغیرہ. [3] الدعوات الکبیر للبیہقي (۲۳۳).