کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 128
چنانچہ ارشاد فرمایا ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰه بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللّٰه مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ [المائدۃ: ۹۴] ’’اے لوگو جو اِیمان لائے ہو! یقینا اللہ تمھیں شکار میں سے کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائے گا جس پر تمھارے ہاتھ اور نیزے پہنچتے ہوں گے، تاکہ اللہ جان لے کون اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے، پھر جو اِس کے بعد حد سے بڑھے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ مشرکوں کو بھی آزماتا ہے کہ میرے ساتھ مخلص ہیں یا میرے ساتھ شریک بنانے پر اڑے رہتے ہیں۔ بت پرستوں کے عقیدے کے مطابق مشکل کشائی ان کی بھی ہوتی تھی اور ہوتی ہے اور وہ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ مشکل ہمارے ان مشکل کشا بتوں سے ہوئی ہے تو کیا بس اسی غلط فہمی کی بنا پر ان کے شرک کو سند جواز دے دی جائے اور بتوں کو مشکل کشا تسلیم کر لیا جائے؟ ہرگز ہرگز نہیں! اس لیے یہ اِستدلال ہی غلط ہے کہ ان بزرگوں سے ہماری حاجت روائی ہو جاتی ہے، اسی لیے ہم انھیں مشکل کشا سمجھتے ہیں اور مدد کے لیے ان کو پکارتے ہیں۔ ہمارے لیے اسوہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ مشکلات میں انھوں نے کسے پکارا ہے؟ وادیِ طائف ہو، غزوۂ بدر و اُحد ہو یا دوسرے غزوات یا ان کے علاوہ دیگر مشکلات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کو پکارا ہے؟ بلکہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت ہود، حضرت یونس، حضرت یعقوب، حضرت ایوب اور حضرت یحییٰ علیہم السلام نے مشکلات اور پریشانیوں میں کسے پکارا اور کس سے مدد طلب کی ہے؟