کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 127
تو سمجھتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ضرورت پوری کر دی۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حاجت پوری کرنا، مشکل دُور کرنا، اولاد دینا، شفا دینا، نفع دینا اور نقصان سے بچانا تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے کیوں کہ ان سب چیزوں کا مالک وہی ہے۔ لیکن مشرک کی مطلب براری دراصل اس کے لیے امتحان اور آزمایش ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ہر طرح آزماتا ہے کبھی نفع دے کر اور کبھی نقصان پہنچا کر اس کے صبر وشکر کا امتحان کرتا ہے اور کبھی اسبابِ معصیت کو آسان بنا کر آزمایش کرتا ہے کہ یہ گناہ سے بچتا ہے تو مجھ سے ڈرتے ہوئے بچتا ہے یا عدمِ قدرت کی وجہ سے بچتا ہے۔ جیسے یہودیوں کو یوم سبت کے احترام کا حکم تھا مگر آزمایش کے لیے ہفتے کے روز مچھلیاں پانی کے اوپر وافر تعداد میں آ جاتیں، یہودی اس آزمایش پر پورے نہ اُتر سکے ایک حیلے سے ہفتے کے روز کا احترام نہ کیا تو اللہ کے عذاب میں دھر لیے گئے۔ اسی آزمایش کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ لَا تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴾ [الأعراف: ۱۶۳] ’’اور ان سے اس بستی کے بارے میں پوچھ جو سمندر کے کنارے پر تھی، جب وہ ہفتے کے دن میں حد سے تجاوز کرتے تھے، جب ان کی مچھلیاں ان کے ہفتے کے دن سراُٹھائے ہوئے ان کے پاس آتیں اور جس دن ان کا ہفتہ نہ ہوتا وہ ان کے پاس نہ آتی تھیں، اس طرح ہم ان کی آزمایش کرتے تھے، اس کی وجہ سے جو وہ نافرمانی کرتے تھے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اِحرام کی حالت میں شکار کرنا حرام قرار دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالتِ احرام میں شکار آمنے سامنے آتا جس میں ان کا امتحان تھا۔