کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 126
کر سکتا، چنانچہ فرمایا ہے: ﴿وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللّٰه إِنَّ اللّٰه كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ [الدہر: ۳۰] ’’اور تم نہیں چاہتے، مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقینا اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اس کی مشیت کوئی اندھی مشیت نہیں، بلکہ اس کی مشیت اس کے کمال علم و حکمت پر مبنی ہے۔ یہی بات سورۃ ا لتکویر (آیت: ۲۹) میں فرمائی ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو کوئی اللہ کی مشیت کے بغیر مدد کیسے کر سکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خارجی کے ہاتھوں شہید ہوئے ان کے بیٹے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء کے ہمراہ کربلا میں جام شہادت نوش فرماگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ اپنے آپ کو بچا سکے نہ اپنے فرزند ارجمند اور ان کے ہم نواؤں کو بچا سکے نہ ان کی کوئی مدد کر سکے۔ اس حقیقت کے برعکس ’’یا علی مدد! مولا علی مدد!‘‘ کے جملے کس قدر خلافِ حقیقت ہیں۔ انہی کا فرمان ہے: ’’عَرَفْتُ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ‘‘[1] ’’میں نے اپنے رب کو پہچانا ہے میرے اِرادوں کے فسخ ہونے سے۔‘‘ یعنی میرا اِرادہ کچھ ہوتا، مگر رب العالمین کا فیصلہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اوپر غزوۂ بدر کے حوالے سے جو آیت آئی ہے وہ اس بارے میں صریح ہے کہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اسی سے اس شبہ کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے جو عموماً مشرکین کو پیش آتا ہے اور اسی بنا پر وہ راہِ شرک چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے، وہ جب غیر اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں اور اپنی حاجات پوری ہوتی ہوئی دیکھتے ہیں
[1] نھج البلاغۃ مع ابن أبي الحدید (۴/ ۳۵۰).