کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 124
اس قسم کی مدد یا تعاون تبھی ہوتا ہے جب تعاون کرنے والا حاضر وموجود ہو اور مدد کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ایسے معاون کو کوئی بھی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھتا، اولاد والدین کی معاون ہوتی ہے، مزدور مالک کا، شاگرد استاد کا، طبیب مریض کا معاون و مددگار ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کہا جاتا ہے: ’’استعن بیمینک‘‘ (اپنے ہاتھ سے مدد لو) ان تمام صورتوں میں مددگار کو حاجت روا نہیں سمجھا جاتا اور مشکل کشا سمجھ کر اُسے بلایا نہیں جاتا۔ مگر جب کسی ہستی کو مدد کے لیے پکارا جائے وہ وہاں موجود نہ ہو اور وہ مطلوب کو پورا کرنے پر قادر بھی نہ ہو، مگر سمجھا جائے کہ وہ ہماری مطلب براری پر قادر ہے اور ہماری پکار کو سن لیتا ہے اس عقیدے کے تحت اس سے مدد طلب کرنا ایسی استعانت ہے جس سے منع فرمایا گیا ہے کیوں کہ دور و نزدیک اور اونچی آواز یا آہستہ آواز کو سننے والا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور وہی ہر چیز دینے پر قادر ہے۔ اولاد دینا، مال و عزت دینا، صحت و شفا دینا سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لیے مافوق الاسباب معاون و مددگار وہی ہے اسی سے ان کے حصول کے لیے مانگنا چاہیے۔ ہر قسم کے شر سے بچنے کے لیے اور ہر قسم کی خیر اور بھلائی کے حصول کے لیے اسی سے مدد طلب کرنی چاہیے بلکہ جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے کوئی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللّٰه فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللّٰه فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾[آل عمران: ۱۶۰] ’’اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ