کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 123
وہ سارے کام خود سرانجام نہیں دے سکتا۔ باہم ایک دوسرے کے تعاون سے زندگی گزارتا ہے۔ انسان کی اسی ضرورت کے تناظر میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾[المائدۃ: ۲] ’’ایک دوسرے کی مدد نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) میں کرو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(( أُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُوْمًا )) فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَنْصُرُہٗ إِذَا کَانَ مَظْلُوْمًا، أَفَرَأَیْتَ إِذَا کَانَ ظَالِمًا کَیْفَ أَنْصُرُہٗ؟ قَالَ: (( تُعْجِزُہٗ أَوْ تَمْنَعُہٗ مِنَ الظُّلْمِ، فَإِنَّ ذٰلِکَ نَصْرَہٗ )) ‘‘[1] ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب وہ مظلوم ہے تو میں اس کی مدد کروں گا، مگر جب وہ ظالم ہو پھر اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ظلم سے روک دو یہ اس کی مدد ہے۔‘‘ اس کی ایک مثال قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے جب قبطی کے ظلم پر بنی اسرائیل کے ایک شخص نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی تھی۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ ﴾ [القصص: ۱۵] ’’تو جو اس کی قوم سے تھا اس نے اس سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا۔‘‘
[1] صحیح البخاري (۶۹۵۲، ۲۴۴۲، ۲۴۴۳) وغیرہ.