کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 121
کرنے والے! مجھے حرام سے بچا کر اپنے حلال سے مجھے کفایت فرما اور اپنے فضل سے اپنے علاوہ دوسروں سے بے نیاز کردے۔‘‘ اللہ کی قسم! میں نے ابھی زمین سے سر نہیں اُٹھایا تھاکہ میں نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی۔ میں نے سجدے سے سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چیل سرخ رنگ کی تھیلی پھینک کر جا رہی ہے، میں نے اسے اٹھایا تو اس میں اسّی دینار اور موتی تھے۔ میں نے مہنگے داموں موتی فروخت کیے، میں نے گھر کا سامان لیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔[1] حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اسی نوعیت کے بعض اور واقعات بھی ’’نور الاقتباس‘‘ میں نقل کیے ہیں۔ ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر تعاون کے لیے کسی سے سوال کی نوبت آئے بھی تو پہلے اللہ تعالیٰ کا دروازہ ہی کھٹکھٹانا چاہیے وہی اپنے بندوں کے دل میں تعاون کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کسی سے تعاون کے لیے کہنا یہ دراصل اِنفاق فی سبیل پر آمادہ کرنا ہے۔ یہ اس سوال کے دائرے میں نہیں آتا جس کی ممانعت حدیث میں آئی ہے۔
[1] فضائل الأعمال للنسفي بحوالہ حیاۃ الحیوان (۱/ ۲۰۹).