کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 120
ہم بڑے متعجب ہوئے اور اس خدمت کا سبب پوچھا تو اس نے کہا امیر سوئے ہوئے تھے خواب میں ایک شہ سوار کو اپنی طرف آتا دیکھا اس نے نیزا امیر کے کولہے پر مارا اور کہا اٹھو فلاں مسجد میں جاؤ۔ وہاں حسن بن سفیان اور ان کے ساتھی تین دن سے بھوکے پڑے ہیں۔ امیر نے مجھے بلایا وہ کولہے پر ہاتھ رکھے کراہ رہا تھا۔ اس نے کہا تم حسن بن سفیان اور ان کے ساتھیوں کو جانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا وہ فلاں مسجد میں ہیں انھیں یہ ہدیہ دے آؤ اور بتلادو کہ وہ خود کل خدمت میں آئیں گے۔ امام حسن فرماتے ہیں: ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور رات ہی مصر کو خیرباد کہہ دیا کہ ایسا نہ ہو کہ امیر ملاقات کے لیے آئیں اور لوگوں میں ہم مشہور ہو جائیں۔[1] مشہور قاری اور راویِ حدیث عاصم بن بَہْدَلَہ فرماتے ہیں کہ مجھے ضرورت لاحق ہوئی تو میں ایک بھائی کے پاس گیا۔ اس سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو میں نے اس کے چہرے سے ناپسندیدگی کے آثار محسوس کیے۔ میں اس کے ہاں سے نکلا اور ایک میدان میں گیا جس قدر نصیب میں تھا نوافل پڑھے، پھر میں نے زمین پر اپنا سر رکھ دیا اور یہ دعا کی: ’’یَا مُسَبِّبَ الْأَسْبَابِ! یَا مُفَتِّحَ الْأَبْوَابِ! یَا سَامِعَ الْأَصْوَاتِ! یَا مُجِیْبَ الدَّعْوَاتِ! یَا قَاضِيَ الْحَاجَاتِ! اکْفِنِيْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَ أَغْنِنِيْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ‘‘ ’’اے مسبّب الاسباب! اے دروازوں کو کھولنے والے! اے آوازوں کو سننے والے! اے دُعاؤں کو قبول کرنے والے! اے ضرورتوں کو پورا
[1] سیر أعلام النبلاء (۱۴/ ۱۶۱، ۱۶۲).