کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 118
10. اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جو اپنے بندے کی ہر وقت سنتا ہے، قُرب و بُعد کے فاصلے اس کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی دُور سے سننے والا نہیں۔ جو زندگی میں دُور سے سن لینے پر قادر نہیں تھا فوت ہونے کے بعد دُور سے پکارنے والے کی آواز کو کیسے سن سکتا ہے؟ سن سکتا ہے تو اس کی شرعی اور حسی دلیل کیا ہے؟ اس لیے شرع اور عقل کا فیصلہ ہے کہ سوال اللہ سے کیا جائے، مانگا جائے تو اللہ سے مانگا جائے، جیسا کہ پہلے کئی احادیث بیان ہوئی ہیں۔ حافظ ذہبی نے ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں امام محمد بن ہارون الرویانی کے ترجمے (حالاتِ زندگی) میں ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ امام ابن جریر، امام ابن خزیمہ، امام محمد بن نصر مروزی اور امام رویانی تحصیل علم کے لیے اکٹھے مصر گئے، وہاں ان کے پاس خرچ کم ہو گیا اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ بالآخر باہمی مشورے سے طے پایا کہ قرعہ اندازی کی جائے اور جس کے نام قرعہ نکلے وہ شہر سے کھانا مانگ کر لائے، چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ امام ابن خزیمہ کے نام نکلا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے ذرا صبر سے کام لو پہلے مجھے نماز پڑھ لینے دو،چنانچہ یہ کہہ کر وہ نماز پڑھنے لگے۔ اسی اثنا میں حاکمِ مصر کا ایک ملازم ہاتھ میں شمع لیے ہوئے ان کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ انھوں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر آتے ہی بولا: آپ میں سے محمد بن نصر کون ہیں؟ جواب دیا گیا کہ یہ ہیں، اس نے پچاس دینار کی ایک تھیلی ان کے ہاتھ میں دی پھر کہا: ابن جریر کون ہیں؟ چنانچہ انھیں بھی پچاس دینار کی ایک تھیلی تھما دی، پھر کہا: ابن خزیمہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ جو نماز پڑھ رہے ہیں، چنانچہ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انھیں بھی پچاس دینار کی تھیلی دے دی۔ پھر اسی طرح ایک تھیلی امام رویانی کو دی۔