کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 117
مشکل سے نہیں بچا سکا۔ (7) اللہ تعالیٰ کے علاوہ جسے بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا جائے تو وہ بہرحال حادث ہے، قدیم نہیں۔ اب اس سے پہلے مشکلوں میں مبتلا ہونے والوں کی مشکل کشائی کون کرتا تھا اور کسے پکارا جاتا تھا؟ (8) کسی سے مانگنا یا سوال کرنا تبھی ہوتا ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ اس چیز کا مالک ہے اور دینے پر قادر ہے۔ کیا مال، اولاد، عزت اور صحت کا اللہ کے علاوہ کوئی اور مالک ہے؟ سبھی انسان ان حوالوں سے اللہ کے محتاج ہیں وہ جسے چاہتا ہے عزت و مال دیتا ہے جسے چاہتا اسے بیٹے اور بیٹیاں عطا فرماتا ہے، جب چاہتا ہے صحت وشفا بخشتا ہے، جیسا کہ آل عمران: ۲۶، ۲۷ اور الشوریٰ: ۴۹، ۵۰ اور دیگر بہت سی آیات میں ہے۔ (6) کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرنے پر قادر نہیں؟ یقینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے فرمایا ہے: ﴿أَلَيْسَ اللّٰه بِكَافٍ عَبْدَهُ ﴾ [الزمر: ۳۶] ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں۔‘‘ یقینا وہ اپنے تمام بندوں کے لیے کافی ہے۔ بندوں ہی کے لیے نہیں تمام جان داروں کے لیے بھی کافی ہے: ﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللّٰه رِزْقُهَا ﴾ [ہود: ۶] ’’اور زمین میں کوئی چلنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے۔‘‘ جب تمام حیوانات کا رازق اللہ ہے اور وہی ان کے لیے روزی رساں ہے تو کیا اشرف المخلوقات کو بھی روزی دینے والا اور ان کی ضروریات کا کفیل اللہ نہیں کہ اُسے چھوڑ کر کسی اور سے مانگا جائے!