کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 115
(5) اللہ سبحانہ و تعالیٰ اگر کسی کو نہ دینا چاہیں تو کیا یہ بزرگ اللہ کی مشیت کے خلاف دینے پر قادر ہیں؟ اسی حدیث، جس کی شرح میں یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، میں فرمایا گیا ہے: (( فَلَوْ أَنَّ الْخَلْقَ کُلَّھُمْ جَمِیْعًا أَرَادُوْا أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَيْئٍ لَمْ یَقْضِہِ اللّٰہُ لَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ )) ’’اگر تمام مخلوق چاہے کہ تمھیں کوئی فائدہ پہنچائیں جس کے دینے کا اللہ نے فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ تمھیں نفع پہنچانے پر قادر نہیں ہے۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بھی فرمایا: ﴿وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللّٰه بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ﴾ [یونس: ۱۰۷] ’’اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اُسے کوئی دُور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، جو دُعا سید شبابِ اہل الجنۃ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو سکھلائی، اس کے کچھ الفاظ یہ ہیں:: (( إِنَّکَ تَقْضِيْ وَ لَا یُقْضٰي عَلَیْکَ إِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ ))[1] ’’تیرا ہی حکم چلتا ہے تُو کسی کے حکم کا پابند نہیں، تُو جس کا دوست ہو وہ رسوا نہیں ہوتا اور تیرا مخالف کبھی عزت نہیں پاتا۔‘‘
[1] أبو داود (۱۴۲۵) ترمذي (۴۶۴) وغیرہ.