کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 114
جب سونے والا سن نہیں سکتا تو فوت ہو جانے والا کیسے سنتا ہے بالخصوص جب کہ وہ جنت کی بہاروں سے سرشار ہو رہا ہو۔ ان کی بے بسی کا عالَم تو یہ ہے: ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (13) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ﴾[الفاطر: ۱۳، ۱۴] ’’اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے مالک نہیں۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار نہیں سنیں گے اور اگر وہ سن لیں تو تمھاری درخواست قبول نہیں کریں گے اور قیامت کے روز تمھارے شرک کا اِنکار کر دیں گے اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر وہ معبود بت ہیں تو ظاہر ہے وہ سمع و بصر ہی سے محروم ہیں اور اگر وہ ملائکہ یا صالحین ہیں تو وہ ان کے قریب ہیں کہ سن سکیں؟ یا وہ حظیرۃ القدس میں اپنے مشاغل میں ہیں وہ ان کی پکار کیسے سنیں؟ یا یہ کہ اللہ نے مشرکین کی اس پکار کو سننے سے ان کی سماعت کو محفوظ کر دیا ہے کہ ان تک یہ قبیح آواز ہی نہ پہنچے۔[1] جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرما دیا کہ مشرکین کا حاجت روائی کے لیے اپنے معبودانِ باطلہ کو پکارنا بے سود ہے ان کے یہ معبود ایسی کوئی پکار نہیں سنتے۔ اس دو ٹوک وضاحت کے بعد یہ نزاع بے مقصد ہے کہ وہ کچھ سنتے ہیں یا نہیں۔ بالفرض اگر وہ کچھ سنتے بھی ہیں مگر مدد کے لیے ان کی پکار کو بہرحال نہیں سنتے۔
[1] روح المعاني.