کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 113
کو سمجھ سکتا ہے نہ سب کی بولی جانتا ہے۔ اس لیے پوری کائنات میں وہی حق دار ہے کہ اس سے مانگا جائے اور اسی سے سوال کیا جائے۔ (2) اسی حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک وقت میں سب کی سننے والا صرف اللہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو بہ یک وقت سب کی سننے پر قادر ہو۔ (3) اسی حدیث سے معلوم ہوا کہ سب کچھ دینے پر صرف اللہ ہی قادر ہے، ہر چیز کے خزانے اسی کے پاس ہیں اور وہ خزانے اس کا حکم ہے جہاں جس کے بارے میں حکم فرما دے وہاں وہ چیز بن جاتی ہے اور صاحب نصیب کو مل جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی سب خود اللہ کے محتاج اور فقیر ہیں تو وہ کسی کو ہر چیز دینے پر قادر کیسے ہو سکتے ہیں؟ (4) اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن اور انسان سبھی نیند اور سستانے کے محتاج ہیں۔ ان کے کچھ اپنے مشاغل بھی ہیں۔ ایسی حالت میں جب وہ بقید حیات ہوں تو سونے والوں اور سستانے والوں کو اور اپنے کاموں میں مشغول ہونے والوں کو پکارا جائے، ان سے سوال کیا جائے تو وہ اس حالت میں بھی سنتے اور حاجت براری پر قادر ہیں؟ بلکہ ایسے وقتوں میں یہ پکار تو ان کے آرام اور کام میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ صرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ، نہ اس کے ہاں سستانے کا تصور ہے نہ آرام کرنے کا۔ بلکہ وہی ہے جو ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴾ [الرحمن: ۲۹] (ہر وقت نئی آن نئی شان میں ہے) اس کے حکم سے بہ یک وقت کسی کی بخشش ہو رہی ہے، کسی کو صحت مل رہی ہے، کسی کو مال مل رہا ہے، کسی کو پیدا کر رہا ہے، کسی کو موت دے رہا ہے، کسی کو عزت دے رہا ہے، کسی کو ذلت میں گرا رہا ہے۔ اس کے شغل و عمل میں کسی کی پکار خلل کا باعث نہیں ہے۔