کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 111
اسی طرح انھوں نے فرمایا ہے: جس کسی نے انسان سے سوال کیا، اس نے الله تعالیٰ سے جہالت کی بنا پر، الله کی معرفت، الله پر یقین، الله پر ایمان کی کمی اور قلتِ صبر کی بنا پر کیا اور انسان سے سوال کرنے سے وہی بچتا ہے جسے الله تعالیٰ کے بارے کامل علم حاصل ہے جس کا ایمان و یقین مضبوط ہے اور جسے ہر روز اور ہر لحظہ الله کی معرفت میں اضافہ نصیب ہوتا ہے۔[1] یہ اور اِسی نوعیت کے اور بہت سے ان کے ارشادات اس بات کے موید ہیں کہ تمام انسان اللہ کے محتاج ہیں، اسی سے سوال، اسی پر بھروسہ اور اِسی پر اِعتماد و توکل کرنا چاہیے۔ یہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور علم عقل کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ غور فرمائیے: (1) اللہ رب العزت کے علاوہ جس کسی سے سوال کیا جائے اور اپنی حاجات و مشکلات میں اسے پکارا جائے، وہ کیا سب زبانیں جانتا ہے؟ اسے دوسری زبانیں جاننے کے لیے ترجمان کی ضرورت پڑتی ہے جو خود کسی دوسرے کی زبان سمجھنے سے قاصر اور محتاج ہو وہ اِلٰہ ومعبود نہیں ہو سکتا اور وہ سب کی حاجت براری بھی نہیں کر سکتا۔ صرف اللہ وحدہ لا شریک ہے جو سمیع و بصیر ہے، سب زبانیں جانتا ہے اور سب کی سنتا ہے۔ حدیث قدسی ہے: (( یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوْا فِيْ صَعِیْدٍ وَّاحِدٍ فَسَأَلُوْنِيْ فَأُعْطِیْتُ کُلَّ وَاحِدٍ مَسْأَلَتَہٗ مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِيْ إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرُ )) [2] ’’اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے اور تمھارے بعد کے سب اور
[1] فتوح الغیب مقالہ نمبر ۴۳ (ص: ۱۰۴). [2] صحیح مسلم (۲۵۷۷).