کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 110
اولیاء اللہ کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یَأْمُرُوْنَ الْخَلْقَ بِأَمْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَیَنْھَوْنَ بِنَہْیِہٖ نِیَابَۃً عَنِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ھُوَ الْوَارِثُ عَلَی الْحَقِیْقَۃِ۔ شَغَلَھُمْ رَدُّ الْخَلْقِ إِلَی بَابِ الْحَقِّ عَزَّوَجَلَّ۔۔۔ الخ‘‘[1] ’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب بن کر مخلوق کو اللہ کا حکم دیتے اور اس کے ممنوعات سے منع کرتے ہیں یہی درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں۔ ان کا شغل مخلوق کو حق تعالیٰ کے دروازے پر لوٹانا ہے۔‘‘ ان کی دعا کا ایک جملہ پڑھیے اور سوچیے کہ کہنے والوں نے کیا کہا اور لکھنے والوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’’ساڈا عبدالقادر، قادر ہے۔‘‘ جب کبھی میں نے استعانت کی ’’یاغوث‘‘ ہی کہا۔ یک درگیر محکم گیر۔[2] مگر وہ خود اپنے اللہ سے کیا التجا کرتے ہیں: ’’اَللّٰھُمَّ اھْدِ جَمِیْعَ الْخَلْقِ إِلٰی بَابِکَ، ھَذَا أَبْدأُ سُؤَالِيْ وَالْأَمْرُ إِلَیْکَ، ھَذٰا دُعَائٌ عَامٌ أَثَابَ عَلَیْہِ وَاللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ یَفْعَلْ فِيْ خَلْقِہٖ مَا یَشَائُ‘‘[3] ’’اے میرے اللہ! ساری مخلوق کو اپنے دروازے کی راہ دکھا دے، یہ ہمیشہ سے میرا سوال ہے مگر فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ یہ دعا عام سب کے لیے ہے جس پر مجھے ثواب ملے گا مگر اپنی مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ جو چاہے فیصلہ فرمائے۔‘‘
[1] المجلس (۳). [2] ملفوظات (ص: ۳۲۰). [3] المجلس (۱۴).