کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 106
﴿قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰه وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴾ [الأعراف: ۱۸۸] ’’کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ کفارِ مکہ کہتے تھے کہ جس عذاب سے آپ ڈراتے ہیں وہ لے آئیں، دیر کاہے کی؟ ان کے اس مطالبے کے جواب میں بھی فرمایا کہ یہ جواب دو: ﴿قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰه لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴾ [یونس: ۴۹] ’’کہہ دے میں اپنی ذات کے لیے نہ کسی نقصان کا مالک ہوں اور نہ کسی نفع کا، مگر جو اللہ چاہے، ہر اُمت کے لیے ایک وقت ہے، جب ان کا وقت آپہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے رہتے ہیں اور نہ آگے بڑھتے ہیں۔‘‘ اس لیے عذاب دینا، نقصان پہنچانا اللہ کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کتنی تکالیف سے دوچار ہونا پڑا۔ طائف و اُحد میں آپ زخمی ہوئے، گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے، یہودی عورت نے زہر ملا کھانا کھلا دیا جس کا اثر آخر تک محسوس کرتے رہے، ایک صحابی یہی کھانا کھانے سے شہید ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اوقات میں بیمار ہوئے، مرض الموت کی شدید