کتاب: شرح حدیث ابن عباس - صفحہ 104
سوال سائل کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے کیا ہی خوب کہا ہے ؎ جو کچھ مانگنا ہے خدا سے مانگ اکبرؔ یہ وہ در ہے کہ شرمندگی نہیں دعا کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے عبدیت و ذلت، عاجزی و اِنکساری کا اظہار عبادت ہے اور یہ باعثِ عار اور شرمندگی نہیں، بلکہ عزت وعظمت کا نشان ہے: ﴿لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا للّٰه وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَنْ يَسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا ﴾ [النساء: ۱۷۲] ’’مسیح ہر گز اس سے عار نہ رکھے گا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب فرشتے ہی اور جو بھی اس کی بندگی سے عار رکھے اور تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنی طرف اکٹھا کرے گا۔‘‘ جب کہ اللہ کے علاوہ کسی سے سوال باعثِ ندامت و ذلت ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اَللّٰہُمَّ کَمَا صِنْتَ وَجْھِيْ عَنِ السُّجُوْدِ لِغَیْرِکَ فَصُنْہُ عَنِ الْمَسْأَلَۃِ لِغَیْرِکَ‘‘ ’’اے اللہ! جیسے تُو نے میرے چہرے کو غیر کے سامنے سجدہ کرنے سے بچایا ہے تو اسے اپنے علاوہ کسی اور سے مانگنے سے بچا۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے مانگنا دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ تمام حاجات کو پورا کرنے کی قدرت و قوت اسی کے پاس ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔