کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 86
نہیں اور نہ کسی موت اور زندگی اور دوبارہ اُٹھائے جانے پر انہیں کوئی اختیار ہے۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا :۔ ﴿ أَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَایَسْتَطِیْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّلَآأَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ ﴾[1] کیا مشرکین نے انکو شریک ٹھہرایا ہے جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود پیدا شدہ ہیں اور انکی کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔ ایک تیسرے مقام پر ارشاد فرمایا:۔ ﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہ لَایَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَماَلَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَالَہُ مِنْھُمْ مِنْ ظَھِیْرٍ ﴾[2] کہدیجئے !پکارو انکو جنہیں تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو،وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر کے بھی مالک نہیں اور نہ ہی زمین وآسمان میں انکی کچھ شرکت ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار ہے۔ ۲۔ ربوبیت والوہیت کاآپس میں لا زم وملزوم ہونا: دوسرا یہ کہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے قائل و معترف تھے یعنی وہ اس ساری کائنات کا رب،خالق،مالک اور متصرف ومدبر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو ربوبیت میں اکیلا ماننا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کو الوہیت وعبادت میں بھی اکیلا مانا جائے کیونکہ جو رب ہے،خالق ہے،مالک ہے اور مدبر ومتصرف ہے تو عبادت بھی اسی کی ہونی چاہیئے۔
[1] سورۃ الأعراف: ۱۹۱۔۱۹۲ [2] سورۃ سبأ: ۲۲