کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 81
واللّٰہ :أصلہ إلاہ علی فعال بمعنی مفعول لأنہ مألوہ أی معبود کقولنا إمام فعال بمعنی مفعول لأنہ مؤتم بہ [1]
اور لفظ اللہ کی اصل إلٰہ بر وزن فعال ہے جو معنی میں صیغہ اسم مفعول کے ہے کیونکہ اللہ مألوہ یعنی معبود ہے جیسے إمام بھی بمعنی مؤتم بہ ہے یعنی اس میں بھی فعال بمعنی مفعول ہے۔
اور کلمہ (إلٰہ) کے معنی ہیں حیرت ودہشت تو اللہ تعالیٰ کو اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ انسانوں کی عقول اس کی عظمت وجلال میں حیران رہ جاتی ہیں چنانچہ آگے چل کر اسی صفحہ پر صاحب ِلسان العرب لکھتے ہیں :۔
(وقیل فی اسم الباری سبحانہ إنہ مأخوذ من ألہ یألہ إذا تحیر لأن العقول تألہ فی عظمتہ [2]
اور کہا گیا ہے کہ اللہ مأخوذ ہے ألہ یألہ سے یعنی جب کوئی حیران ہوجائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کے بارے میں بھی عقلیں حیران ہیں۔
(الوہیت)) کا معنی ہے عبادت چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کر کے صاحب لسان العرب لکھتے ہیں :
(والإلاھۃ والألوھۃ والألوھیۃ العبادۃ [3]
(الإ لا ھۃ) اور (الألوھۃ) اور (الألوھیۃ) کے معنی عبادت ہیں۔
[1] لسان العرب : ج ۱۳ ص ۴۶۹ حرف (ھ) بحث (إلہ) واللفظ لہ/ المختارمن صحاح اللغۃ۔ص ۱۶۔باب الھمزۃ/ معجم مقاییس اللغۃ ج۱ص۱۲۷کتاب الھمزۃ باب الھمزۃ واللام۔ بحث ألہ/ المنجد :قسم اللغۃ۔حرف الھمزۃ، بحث ألہ۔
[2] لسان العرب :ج ۱۳ ص ۴۶۹حرف (ھ )بحث الہ
[3] لسان العرب :ج۳۱ ص ۴۶۸ حرف(ھ) بحث (إلہ)