کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 80
خلاصہ :
یہ کہ خالقیت،رازقیت، مالکیت، اور تصرف وتدبیر وغیرہ صفات، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر قاطع دلیل ہیں اور قدیم زمانہ کے بت پرست بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا اقرار کرتے تھے چنانچہ قران کریم نے ان کا اقرار یوں نقل کیا :
﴿ قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالأَرْضِ أَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُوْنَ، فَذَلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلَالُ ﴾ [1]
آپ پو چھیئے کون ہے جو تمیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے یا وہ کون ہے جو تمارے کان وآنکھوں کا مالک ہے اور کون زندہ کو مُردہ سے اور مُردہ کوزندہ سے نکالتا ہے اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ پس وہ جلد ہی کہیں گے،اللہ، آپ کہیں پھر ڈرتے کیوں نہیں،پس یہی اللہ تمہارا حقیق رب ہے،سو امرِ حق کے بعد سوائے گمراہی کے کیا رہ جاتا ہے۔
فصل سوئم
اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان لانا:
الوہیت: الٰہ سے ہے اور الٰہ فِعال کے وزن پر ہے۔ اور (فِعال) مفعول کے معنی میں آتا ہے تو (الٰہ )مألوہ کے معنی میں ہوگا اور(مألوہ) کا معنی ہے معبود۔ چنانچہ لفظِ اللہ کی تحقیق کرتے ہوئے صاحبِ لسان العرب لکھتے ہیں :
[1] سورۃ:یونس : ۳۱۔۳۲