کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 79
ایک تیسرے مقام پر فرمایا : (وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إلاَّعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا ) [1] اور زمین پر کوئی ایسا چلنے پھرنے والا نہیں ہے جس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو اور وہی اس کے ٹھکانے اور سپرد کیئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ جب یہ بات بغیر کسی معارضہ کے ثابت ہوئی کہ ہر حی وذی روح کا رازق اﷲ تعالیٰ ہی ہے تو کیا یہ اس کی ربوبیت پرایک قاطع دلیل نہیں ہے ؟ لازماً ہے۔ ۳۔ اللہ تعالیٰ کا ملک و باد شاہت میں اکیلا ہونا : کیونکہ یہ بات ساری انسانیت وبشریت کے ہاں مسلّم ومتعین ہے کہ دوسری مخلوقات کی طرح انسان بھی اس کائنات کی کسی بھی چیز کا حقیقت میں مالک نہیں ہے اور یہ صرف دعوی ہی نہیں بلکہ واقع ہے کیونکہ ابتداء میں جب انسان ماں کے پیٹ سے نکل کر اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو ننگے بدن، ننگے سر اور پیروں میں چپل تک بھی نہیں ہوتی اور اسی طرح جب انسان اس دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف چلا جاتا ہے تو سوائے دس گز کفن کے اور کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ انسان اس کائنات کی کسی بھی چیز کا حقیقت میں مالک نہیں ہے۔ اب جب انسان کی مالکیت اس کائنات پر باطل ہوئی تو اب بتائیے اس کا مالک کون ہے؟ اس لئے اس کا مالک بغیر کسی جنگ وجدل،شک وشبہ اور چون وچراکے اللہ تعالیٰ ہی کو ماننا پڑیگا جیسے کہ اس کا فرمان ہے : ﴿ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ﴾ [2] اور تمام آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کیلئے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے۔
[1] سورۃھود: ۶ [2] سورۃ آل عمران : ۱۸۰