کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 78
ما قبل والی آیات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ صفت خلق یا خالقیت میں اکیلا ہے جب مسئلہ یوں ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کی خالقیت اسکی ربوبیت پر دلیل نہیں ؟ یقیناً ہے۔ پس ہمارا دعویٰ ثابت ہے۔ ۲۔ صفتِ رزق یا ترزیق میں اللہ تعالیٰ کا اکیلا ہونا : کیونکہ کوئی حیوان ایسا نہیں جو زمین پرچلتا ہو یاہوا میں اُڑتا ہو یا سمندروں میں تیرتا ہو مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسکے رزق وروزی کا ذمہ اٹھایا ہے،پس چیونٹی یا اس سے بھی چھوٹے حیوان سے لیکر انسان تک جو اعلی واقوی اور اکمل ترین مخلوق ہے سب کے سب جس طرح اپنے وجود وتکوین کیلئے اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی طرح اپنی غذا ورزق کیلئے بھی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور وہی انکا رازق ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلٰی طَعَامِہٖٓ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَآئَ صَبّاً ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقّاً فَأَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا وَّزَیْتُوْنًاوَّنَخْلًا وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا وَّ فَاکِھَۃً وَّأَبًّا مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ ﴾ [1] آدمی کو چاہیئے کہ کھانے پر نظر کرے کہ ہم نے خوب پانی برسایا پھر زمین کو عجیب طریقے سے پھاڑا اور اس میں غلّہ اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجور گنجان باغ اور میوے اور چارہ پیدا کیا، یہ سب تمہیں اورتمہارے مویشیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ایک دوسری جگہ پر فرمایا: ﴿ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَأَخْرَجْنَا بِہٖٓ أَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی کُلُوْا وَارْعَوْا أَنْعَامَکُمْ ﴾ [2] اور آسمان کی جانب سے پانی اُتارا پھر اس سے مختلف اقسام کے نباتات اُگائے۔تم خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔
[1] سورۃ عبس :۲۴۔۳۲ [2] سورۃ طہ: ۵۳۔۵۴