کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 69
ساری دنیا کو چیلنج کرکے عاجزکردیا ؟کیا کوئی کلام بغیر متکلم کے اور کوئی قول بغیر قائل کے ہوسکتا ہے؟ خصوصاً جب آج تک کسی بشر نے اس کلام کو اپنی طرف منسوب کرنے کا دعوی بھی نہیں کیا کیونکہ یہ بشر کی طاقت سے خارج ہے۔جب بشر کی طاقت سے خارج ہوا تو لامحالہ یہ خالقِ بشر کا کلام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے وجودپر ایک قاطع دلیل ہے
فطری دلا ئل:
۱:فطرت سلیمۃ:اللہ تعالیٰ کے وجود پر فطرت انسانی بھی ایک کافی وشافی دلیل ہے کیونکہ مخلوق کی فطرت میں بغیر کسی سابق سوچ وفکر کے یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ اس کا ایک خالق وموجد ہے جو اس کو عدم سے وجود میں لایا ہے،بشرطیکہ اس کے قلب کو کسی پھیرنے والے امر نے اس فطرت سلیمہ سے پھیر نہ دیا ہو۔ جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:
( کل مولود یولد علی الفطرۃ فأبواہ یھودانہ أو ینصرانہ أو یمجسانہ) [1]
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اُسکے والدین اُسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔
۲: بھوکے طفل کا رونا:جب شیرخوار بچہ کو بھوک لگتی ہے تو وہ رونے لگ جاتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ سب اس کی فطرت میں داخل ہے جوکہ اس فطرت والے کے وجود پر ایک کافی وشافی دلیل ہے۔
حِسّی دلائل:
حِسّ ومشاہدہ بھی اللہ کے وجود پر ایک قوی دلیل ہے۔ ہم یہاں حِسّی دلائل کی رو سے دو طرح استدلال کرتے ہیں۔
۱۔ پکارنے والوں کی فریاد رسی:
پہلا یہ کہ ہم پکارنے والوں کی پکار کی قبولیت اور پریشان حالوں کی فریاد رسی کو سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں۔ جیسے کہ نوح علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَنُوْحاً إذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَنَجَّیْنٰہُ وَأھْلَہُ مِنَ الْکَرْبِ
اور ذکر کریں نوح علیہ السلام کا جب اس نے ان واقعات سے پہلے پکارا پس ہم نے اسکی
[1] رواہ البخاری کتاب الجنائز،باب ما قیل فی اولادالمشرکین، واللفظ لہ/مسلم کتاب القدر باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ......