کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 68
مگر مشرکین عرب اس آخری چیلنج کا مقابلہ کرنے سے بھی عاجز ہوکر قرآن جیسی فصیح وبلیغ ایک سورہ بھی نہ لاسکے۔اور تینوں چیلنج مکہ میں ہی دیئے جارہے ہیں جو جزیرہ عرب کا قلب ہے کیونکہ اوپر والی تینوں سورتیں مکی ہیں۔ اگر چہ آخری چیلنج کو مدینہ منورہ میں بھی دہرا یا گیا ہے جیسے سورہ بقرہ میں یوں آیا ہے:
﴿ وَإِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾[1]
اور اگر تم اس کتاب کے بارے میں شک میں ہو جوہم نے اپنے بندے پر نازل کی تو تم اس جیسی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے مددگاروں کوبلاؤ۔
مگراصل میں تینوں چیلنج مکہ مکرمہ ہی میں دیئے گئے ہیں۔اور پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیدی کہ صرف جزیرہ عرب کے مشرکین عرب اور اہل کتاب ہی نہیں بلکہ اگر ساری دنیاکے انس وجن اکھٹے ہوکر ایک دوسرے کے معین ومددگار بن جائیں تو بھی اس قرآن کی مثل نہیں لا سکیں گے اور یہ خبر بھی اللہ تعالیٰ نے مکی سورت میں دی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
﴿ قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰیٓ أَنْ یَّأْتُوْابِمِثْلِ ھَذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَأْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُھُمْ لِبِعْضٍ ظَھِیْرًا ﴾[2]
کہدیجئے کہ اگر تمام انس اور جن اس قرآن جیسی کتاب لانے پر متفق ہوجائیں تو وہ اس جیسی کتاب نہیں لا سکتے اگر چہ ایک دوسرے کے مددگاربن جائیں۔
خلاصہ کلام :
یہ ہے کہ یہ فصیح وبلیغ اور صادق وسچا کلام کس کا ہے جس نے
[1] سورۃ البقرۃ : ۲۳
[2] سورۃ الأسراء: ۸۸