کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 66
کررہے تھے قرآن کریم کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کرسکے خاص طور جب قرآن نے ان کے بنیادی عقائد ونظریات اور آبائی عادات وتقالید کو باطل وبے بنیادٹھہراکر ان کو دھچکا لگایا۔ تو اس پر مشرکین عرب قرآن کریم پر زیادہ غضبناک تھے اور وہ یہ چا ہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح سے قرآن کو کسی شاعر ومجنون اور ساحر وجادوگر کا کلام ثابت کرکے باطل ٹھہرا سکیں اوراس پر انہوں نے اپنی ساری طاقت خرچ کی مگر ناکام ہوگئے چنانچہ ابتدائی مرحلے میں جب قرآن کا نزول شروع ہوا تو مشرکین مکہ نے اپنا جی بہلانے کیلئے قرآن کے متعلق جرأت کرکے اتنا تو کہدیا کہ یہ کلا م ہم نے سن لیااگر ہم چاہیں تو اس جیسا کلام ہم بھی لاسکتے ہیں، چنانچہ قرآن کریم نے اس بارے میں انکا قول یوں نقل فرمایا:
﴿ وَإِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْا نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآإِنْ ھٰذَا إِلَّا أَسٰطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ ﴾ [1]
اور جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا ہے،اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس جیسا کہہ سکتے ہیں یہ تو محض پہلے لوگوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔
جب مشرکینِ عرب نے اپنے نفس کو دھوکہ دینے کیلئے یہ دعویٰ کیا کہ ہم اس کلام کا مثل لا سکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سمیت سارے مشرکین عرب کو اس قرآن کے مثل لانے کیلئے یکے بعد دیگرے تین طرح کے چیلنج دیئے:
۱۔ پہلا چیلنج :
یہ تھا کہ سارے قرآن کریم کا مثل لاؤ۔
[1] سورۃ الانفال : ۳۲