کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 65
اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات کو ہم نے اپنی کتاب (اضواء التوحید ) میں قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے وہاں مراجعت کریں۔ یہ تو تھے چند تاریخی حقائق جن کا تعلق بعض انبیاء علیہم السلام، اور امم سابقین سے تھا اور ان علوم سے ایسے نظریہ کے لوگ واقف تھے جو کہ عداوت واسلام دشمنی میں بہت ہی آگے تھے مگر اس سب کچھ کے باوجود قرآن کریم نے مقابلہ کے ہر میدان میں ان کو ہرا یا اور ان پر غالب رہا،یہ توہوا قرآن کا مقابلہ کرنا اور غلبہ پانا ان نظریہ وا لے لوگوں پرجو کہ علوم سماویہ کیوجہ سے ساری دنیا کے لوگوں پر اپنے آپ کو بر تر سمجھ کر ان پر فخر کرتے تھے۔
(ب) مشرکین عرب
اب سن لیں قرآن کریم کا تحدی وچیلنج ان نظریہ والوں کے ساتھ جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا، اور وہ تھے مشرکین عرب، جن کو اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز تھا خاص طور پر اہل مکہ (قریش )اور ان کے آس پاس کے دوسرے قبائل جیسے بنو تمیم، بنو کندہ، ایاد، ہذیل، مزینہ، اور ہوازن، وغیرہ جو فصاحت وبلاغت کے میدان میں اعلیٰ و ارفع مقام رکھتے تھے۔ اس (فصاحت وبلاغت )کے میدان میں ان قبائل کاآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ مقابلہ رہتا تھا۔ چنانچہ مکہ مکرمہ کے قرب وجوار میں سالانہ ایک منڈی سوق عکاظ کے نام سے قائم ہوتی تھی جس میں مختلف قبائل کے شعراء،وفصحاء وبلغاء اور خطباء وواعظین اکھٹے ہوکر اپنی فصاحت وبلاغت کا مظاہرہ کرکے ایک دوسرے پر فخر کرتے تھے۔ اور قرآن کریم کا نزول اسی زمانہ اور اسی ماحول میں ہواجہاں ایک جانب تو فصاحت وبلاغت اپنے عروج پرتھی اور دوسری طرف قبائل کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس میں مقابلہ وتفاخر بھی تھا،مگریہ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ شعراء اور فصحاء وبلغاء جو اپنی فصاحت وبلاغت پر فخر