کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 64
مشرکین مکہ کے وفد سے کہا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کرو۔ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان سوالوں کا جواب دیدیا تو اس کی اتباع کرلو کیونکہ اس صورت میں وہ لازماً نبی ہونگے کیونکہ ان واقعات کا جاننا بغیر وحی کے ممکن نہیں اوراگروہ ان سوالوں کا جواب نہ دے سکے تو انکو چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ سوالات لے کر یہ وفد، مشرکین مکہ کے پاس پہنچ گیا۔ تو مشرکین مکہ یہود مدینہ کے ان تجویز شدہ سوالوں کو دیکھ کربہت خوش ہوئے اورپھر ان سوالات کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے کہنے لگے کہ لو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اگر آپ نبی ورسول ہیں تو ان سوالوں کا جواب دیجئے۔تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سمجھا کہ شاید کل کو جبرئیل امین علیہ السلام آکر مجھے ان سوالون کے جوابات کی تفصیل بتادیں گے اسی لئے آپ نے مشرکیں مکہ سے فرمایا کہ ان سوالوں کا جواب میں تم کو کل دونگا۔ مگر اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان شاء اللہ کہنا بھول گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس ان شاء اللہ نہ کہنے کیوجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کرنے کیلئے کچھ مدت تک کیلئے وحی کا سلسلہ روک دیا پھر پندرہ دن گزر نے کے بعد سورہ کہف اول سے لے کر آخر تک بیک وقت نازل فرمائی جس میں مشرکین مکہ کے سوالوں کا تفصیلی جواب موجود تھا۔
خلاصہ کلام:
یہ ہے کہ اہل کتاب(یہود ) کو بعد میں جب اپنے ان تجویزکردہ سوالوں کے تفصیلی جواب کا علم ہوگیا تو وہ اس پر خاموشی اختیار کرکے قرآن کی تردید کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔جس سے صاف معلوم ہوا کہ یہ علوم جس طرح اہل کتاب کے پاس محفوظ وموجود تھے بعینہ اسی طرح قرآن کریم میں آگئے ہیں اور یہ قرآن کی صداقت وسچائی کی ایک بہترین دلیل ہے۔