کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 60
نزول قرآن کے وقت کے لوگوں کے نظریئے
معلوم ہونا چاہیئے کہ نزول قرآن کے وقت جزیرہ عرب اور اسکے قرب و جوار علاقوں (جیسے شام وغیرہ) میں عام طور دو نظریئے رکھنے والے لوگ موجود تھے، ایک اہل کتاب جیسے یہود، ونصاری۔ اور دوسرانظریہ تھا عرب بت پرستوں کا۔ان دونوں نظریوں کے حاملین قرآن کریم کو جھٹلانے والے اور اسلام کے سخت ترین دشمن سمجھے جاتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا معارضہ کرکے کسی نہ کسی طرح کا کوئی شبہ ونقص ثابت کرکے اسلام کو مشکوک بنائیں۔ اور اس میں انہوں نے اپنی ساری طاقت خرچ کی مگرناکام ہو گئے۔جب کہ ان دو نوں نظریہ والوں میں کچھ نہ کچھ کمالات بھی تھے۔
اب ہم نہایت اختصار کے ساتھ ان دونوں نظریئے والوں کے مقابلہ میں قرآن کریم کی صداقت وبرتری کے کچھ نمونے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
(الف ) اہل کتاب
اہل کتاب کے پاس تورات وانجیل جیسی آسمانی کتابوں کے بقا یا علوم موجود تھے اور اس پر ان کو بڑا ناز تھا یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب اپنے ان علوم کے بل بوتے پر عربوں کو امیّین (ان پڑھ) کے نام سے موسوم کرکے ان پر اپنی برتری قائم کرتے ہوئے بڑا فخر کرتے تھے،کیونکہ ان کتب سماویہ کی وجہ سے ان کے پاس قصص انبیاء، وامم سابقین، تاریخی واقعات، اور دوسرے اخبار غیبیہ وغیرہ جیسے علوم موجود تھے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی کتابیں آپس میں متعارض نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسرے کی مؤید و مصدق ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ کے قلب میں جہاں اہل کتاب کثرت کے ساتھ موجود تھے وقتاً فوقتاً قرآن اترتا تھا جس میں انبیاء علیھم السلام وامم سابقین کے