کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 37
۲۔ دوسری یہ کہ یہ سارا عالم مادہ اور اس کی حرکتوں سے وجود میں آیا ہے۔ اور اس دوسری قسم کی پھر دو قسمیں فرض کی جاتی ہیں۔
الف۔ پہلی یہ کہ یہ سارا عالم مادہ اور اس کی اتفاقی حرکت سے وجود میں آیا۔
ب۔ یا پھر مادہ کی ارادی حرکت سے ظاہر ہوا۔ یہ آخری صورت تو قطعاً باطل ہے کیونکہ سارے عقلاء حتیٰ کہ مادہ پرست بھی اس پر متفق ہیں کہ مادہ قصد وارادہ سے خالی ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ مادہ اور اس کی اتفاقی حرکت سے شاید یہ دنیا بنی ہے۔ تو یہ صورت بھی قطعاً غلط اور باطل ہے کیونکہ عالم کائنات میں حکیمانہ ترتیب اور ایسا مدبّرانہ نظام ہے جس کا ایک ایک ذرہ اس بات کی شھادت دے رہاہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ اس کی ہر ایک چیز میں ضابطہ اور قانون کارفرماہے۔اوراس کی ہرشے بامقصدہے جوایک بے شعور،بے علم،بے ارادہ اندھے اوربہرے مادے اوراس کی حرکت اتفاقیہ کانتیجہ کسی صورت میں بھی نہیں بن سکتی جب یہ صورت بھی باطل ہوئی تو کائنات کے وجود کے متعلق صرف وہی ایک ہی صورت متعین اورثابت ہوگئی کہ وہ ایک حکیم،قادر،مختاراورحیّ وقیوم ذات کے قصدوارادہ کے ماتحت ظہور میں آئی ہے۔ اوریہی درست اورعقل کے عین مطابق ہے۔
ایک د لچسپ مثال
اگرشیخ سعدی رحمہ اﷲیاحافظ شیرازی رحمہ اﷲکی ایک نظم کے متفرق مفردات اور الفاظ کا غذ کی پرچیوں پر لکھ کر ایک تھیلے میں ڈال دیئے جائیں اور ایک نا بینا بچے کے ذریعہ ایک ایک پرچی نکلوائی جائے توہزارہا مرتبہ ایساکرنے پروہ نظم مرتب شکل میں وجودمیں نہ آسکے گی۔جب اتنی چھوٹی سی نظم اس طرح کرنے سے اتفاقاً وجودمیں نہیں آسکتی توبھلایہ ساری کائنات کایہ حکیمانہ مرتب سلسلہ اوربامقصدنظام ایک مُردے،اندھے اوربہرے مادے سے کس طرح وجودمیں آسکتاہے؟