کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 33
موجِدومربی حیّ وقیوم،حکیم ومدبراورعلیم وقدیرکے مانتے ہیں۔تعجب ہے ان کی عقول پرجوایسی ذات کے وجودکاانکارکرتے ہیں کہ جس کے وجودپرہرموجودکاوجوددلیل ہے۔ اب ہم مخلوقات میں سے ایک چھوٹی سی مخلوق کی مثال دے کراس مسئلہ پرروشنی ڈالتے ہیں۔ مثلاً کسی نے کوئی برتن کسی جگہ پربہترین انداز میں رکھاہوادیکھ لیاکیاکوئی سمجھداراورباشعورانسان اس بات کویقین کرکے مان سکتاہے کہ یہ برتن خودبخودیہاں پررکھاہواہے اوراس کوکسی نے اس بہترین اندازمیں یہاں پرنہیں رکھا ؟توصاف ظاہرہے کہ ہرباشعوراورصاحب عقل انسان اس شخص کوپاگل و مجنون کہے گاکہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک برتن بغیرکسی رکھنے والے کے خودبخودرکھا گیا ہو اوروہ بھی ایک بہترین انداز میں ؟نہیں اورہرگزنہیں بلکہ اسکوکوئی نہ کوئی رکھنے والاضرورہے۔جب ایک معمولی سابرتن بغیرکسی رکھنے والے کے خودبخودنہیں رکھاجاسکتا توبھلایہ زمین و آسمان،دریاوخشکی،شمس وقمر،لیل ونہاراورنباتات وجمادات وغیرہ ساری کائنات بغیرکسی بنانے والے کے خودبخودکیسے وجودمیں آسکتی ہے؟ اسلئے ہم کہتے ہیں کہ پاگلوں کیطرح عقل کے اندھے مت بنوبلکہ عقلاء کیطرح جاکربحث وتمحیص اورغوروفکرکرو،تلاش وجستجوکروایسے خالق، رازق، مدبر،صاحب قدرت وارادہ اورصاحب علم و حکمت کی جوپیداکرے،رز ق دے،تدبیرکرے،قدرت رکھتاہو،علم رکھتاہواورحکمت کامالک ہو۔ جاؤتلاش کروایسے الٰہ ومعبودکوجومذکورہ صفات کامالک ہو۔اوراپنی عقل کومعطل کرکے اس کی توہین نہ کروکیونکہ تم اس بات کواچھی طرح سے جانتے ہوکہ اگرکوئی شخص اپنی عقل کو گم کردے تووہ پاگل ومجنون بن جاتاہے اورمخبوط الحواس والتفکیربن کر مسلوبِ (گم شدہ) ارادہ وتدبیرہوجاتاہے جوبغیرسمجھ کے بولتاہے،غیرمقصودکیطرف بھاگتاہے اوربغیرہدف کے تیر پھینکتاہے۔اوریہ سب کاسب فقدانِ عقل کانتیجہ ہے اسلئے اپنی عقل کوذلیل ومعطل مت کروبلکہ اس سے کام لو۔ کیاتم یہی کہتے ہوکہ یہ ساری کائنات اس بہترین نظم ونسق کے ساتھ بغیرکسی بنانے والے کے خود