کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 20
اس تفصیل کی روشنی میں زیرِ نظر کتاب کی اہمیت وافادیت کافی حدتک بڑھ جاتی ہے،بلکہ اپنے موضوع ومندرجات کے پیشِ نظر یہ ہر شخص کی ضرورت ہے، چنانچہ اس کتاب کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ اﷲتعالیٰ،اس کی کتابوں،رسولوں اور فرشتوں پر ایمان لانے کی حقیقت کیاہے؟ اور آخرت اور تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت کیا ہے؟ سابقہ امتوں میں یہود عزیر علیہ السلام پر اور عیسائی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے،لیکن ان کی حقیقت ِ ایمان یہ تھی کہ وہ ان دونوں نبیوں کو اﷲتعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے، تو کیا یہود کا عزیر علیہ السلام پر اور عیسائیوں کا عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان درست اور قابلِ قبول قرارپاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ؛کیونکہ ان کا ایمان حقیقت ِ شرعیہ کے خلاف ہے۔ اسی طرح آج اگر کوئی شخص اﷲتعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے مگر اس طرح کہ وہ اس کی الوہیت یا ربوبیت یا اسماء وصفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے، تو کیا اس کاایمان باﷲ قابلِ قبول ہوسکتا ہے؟یا کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے مگر اس طرح کہ وہ بشر نہیں بلکہ نور من نور اﷲ ہیں، مختارِ کل ہیں، عالم الغیب ہیں، اﷲتعالیٰ کے ساتھ عرش پر مستوی ہیں، بلکہ اﷲتعالیٰ ہی احد سے احمد بن کر زمین پر اتر آیا۔تو کیا اس کا ایمان بالرسول درست اور قابلِ قبول قرار پاسکتا ہے؟ہرگز نہیں۔کیونکہ یہ ایمان حقیقتِ شرعیہ کے خلاف ہے۔ تو پھر ضروری ہے کہ ایمان کے چھ ارکان کا صحیح مفہوم حاصل کیا جائے،اور صحیح مفہوم کو دل کی گہرائیوں سے یقین کامل کے ساتھ قبول کیا جائے۔فقیہ الامۃ عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول کا یہی مصداق ہے : ’’الیقین الایمان کلہ .... ‘‘ (صحیح بخاری کتاب الایمان)