کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 19
یعنی:’’ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ....‘‘ مذکورہ تمام نصوص سے واضح ہوتا ہے کہ دخولِ جنت کیلئے صاحب ِایمان ہونا شرط ہے، اس مضمون کو قرآنِ حکیم نے یوں بیان فرمایا ہے: ﴿ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَھُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ﴾ یعنی:’’منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔‘‘ (سورۃ المائدۃ :۵) یہ تمام امور اس امر کو متقاضی ہیں کہ ہم حقیقتِ ایمان کی صحیح اور کامل معرفت حاصل کریں،اور خصوصاً باعتبارِ’’ مایؤمن بہ‘‘ایمان کے جملہ ارکان کو سمجھنے اور خصوصی طور پر ان دو یعنی اللہ پر ایمان اور اس کے رسولوں پر ایمان کو سمجھنے اور ان کا علم حاصل کرنے کی مکمل اور بھرپور کوشش کریں۔ بہت سے لوگ ایمان کے مذکورہ دوارکان کو مانتے تو ہیں لیکن ان کے بارہ میں ان کاعلم ومعرفت شرعی مراد کے مطابق نہیں ہوتا،حالانکہ شرعی حقائق کو اﷲتعالیٰ اور رسول اﷲ کی منشأومراد کے مطابق ماننا ضروری ہے، امام مقدسی رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب ’’لمعۃ الاعتقاد ‘‘میں امام شافعی رحمہ اﷲ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’ نؤمن باللّٰہ وبماجاء من اللّٰہ علٰی مراد اللّٰہ ونؤمن برسول اللّٰہ وبما جاء عن رسول اللّٰہ علٰی مراد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ ’’ہم اﷲتعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اﷲتعالیٰ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے اس پر اﷲتعالیٰ کی مراد کے مطابق ایمان لاتے ہیں، اسی طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو کچھ آیا ہے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے مطابق ایمان لاتے ہیں ‘‘