کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 171
من حدید لو ضرب بھاجبل لصار ترابا‘ قال’ فیضربہ بھا ضربۃ یسمعھا ما بین المشرق و المغرب الا الثقلین فیصیرترابا‘ قال’ثم تعاد فیہ الروح۔۔[1] گرمی اور بدبو آنے لگتی ہے اور فرمایا اسکی قبر اس کیلئے اتنی تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے پر چڑھ جاتی ہیں۔ حدیثِ جریر میں یہ اضافہ ہے کہ فرمایا پھر اس پر ایک اندھا، بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتاہے، اسکے پاس لوہے کا گرز ہوتا ہے، اگر اسکے ساتھ کسی پہاڑ کو مارا جائے تو وہ مٹی بن جائے۔ فرمایا وہ اسے ایک ضرب لگاتا ہے جس کو انسانوں اور جنّات کے علاوہ مشرق و مغرب میں سب سنتے ہیں تو وہ مٹی بن جاتا ہے، فرمایا کہ پھر روح اس میں لوٹا دیجاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں یوں آیا ہے:۔ عن أبی ھریرۃ رضی اﷲعنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا قبر المیت أوقال أحدکم أتاہ ملکان أسود ان أزرقان یقال لأحدھما المنکر و للآخر النکیر فیقولان : ما کنت تقول فی ھذاالرجل فیقول ما کان یقول ھو عبداللّٰہ و رسولہ۔ أشھد أن لا الہ الااللّٰہ و أن محمدا عبدہ و رسولہ حضرت ابوہریرۃ رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسکے پاس دو کالے رنگ اور نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں جن میں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔ پھر وہ دونوں فرشتے پوچھتے ہیں تم اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ پس وہ شخص وہی کہے گا جو وہ دنیا میں کہتا تھا کہ وہ اللہ کا بندہ اور اسکا رسول ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا
[1] رواہ ابو داؤد : کتاب السنۃ باب فی المسئلۃ فی القبر و عذاب القبر۔سکت عنہ أبوداؤد وھذا یدل علی صحتہ عندہ وصححہ الألبانی أیضاً