کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 104
تأویل کرکے مجاز پر محمول کریں، مثلا اگر کوئی اشعری اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصر کو تو حقیقۃ مانتا ہے مگر اسکی صفت (ید) اور صفت،استواء علی العرش، کو تشبیہ کے ڈر سے حقیقۃ نہیں مانتا بلکہ،ید، کی تاویل قدرت ونعمت سے اور،استواء علی العرش، کی تأویل استولی سے کرتا ہے۔تو ہم اس سے کہیں گے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات میں یہ فرق کیوں کیا کہ اسکی صفت سمع وبصر کو تو حقیقۃ مانا ہے اور صفت،ید، اور،’’استواء علی العرش ‘‘ کو تأویل کرکے مجاز پر محمول کردیا ہے آخر یہ کیوں کیا؟ اگر وہ یہ کہے کہ میں نے یہ فرق تشبیہ کے ڈر سے کیا ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کے لئے،ید، حقیقۃ مانا جائے تو مخلوق کیساتھ مشابہ ہوجائے گا جیسے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے متعلق فرماتے ہیں :
﴿ یٰٓأ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوْانِعْمَتَ اللّٰہ عَلَیْکُمْ إِذْ ھَمَّ قَوْمٌ أَنْ یَّبْسُطُوٓا إِلَیْکُمْ أَیْدِیَھُمْ فَکَفَّ أَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ ﴾ [1]
اے ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، جب ایک قوم نے ارادہ کیا کہ تمہاری طرف ہاتھ بڑھا ئیں،پس اللہ نے انکے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا۔
اور اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کے لئے صفت (استواء علی العرش ) حقیقۃ مانا جائے تو مخلوق کے ساتھ مشابہ ہوجائے گا جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :۔
﴿ لِتَسْتَوٗا عَلٰی ظُھُوْرِہٖ ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَ اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُوْلُوْا سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ ﴾[2]
تاکہ تم إن کشتیوں اور چوپایوں کی پشت پر خوب جم کر بیٹھو،جب تم اطمینان سے بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کے احسان کو یاد کرو اور کہو پاک ہے وہ ذات جس
[1] سورۃ المائدہ: اا
[2] سورۃ الزخرف: ۳ا