کتاب: شرح ارکان ایمان - صفحہ 100
کی صفات کو بغیر کسی تأویل وتکییف کے مانتے تھے چنانچہ امام ابن القیم رحمہ اللہ اور امام ذھبی رحمہ اللہ نے ان کے قول کو سند کے ساتھ یوں نقل کیا ہے۔ (قال الخلال فی کتاب السنۃحدثنا یوسف بن موسی قال أخبرنا عبد اللّٰہ بن احمد بن حنبل قال قیل لأبی ربنا تبارک وتعالیٰ فوق السماء السابعۃ علی عرشہ بائن من خلقہ وقدرتہ وعلمہ بکل مکان قال نعم لا یخلو شیئٌ من علمہ ) [1] امام احمد رحمہ اللہ کے صا حبزادے عبد اللہ بتاتے ہیں کہ میرے والد صا حب سے کہا گیا کہ ہمارا رب اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے اور اپنی مخلوق سے الگ ہے اور اپنی قدرت اورعلم کے ساتھ ہر جگہ ہے۔ تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: جی ہاں ! اللہ کے علم سے کوئی چیز خارج نہیں۔ عقلی دلائل ۱۔ پہلی د لیل: یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اپنے لئے صفات ثابت کی ہیں اور ہمیں اس بات سے منع نہیں فرمایا کہ ہم اسے ان صفات سے متصف کریں اور نہ ہی ہمیں ان صفات کی تأویل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی ان صفات کو ان کے ظاہری معنی سے پھیر نے کیلئے کہاہے۔ جب مسئلہ یوں ہے تو کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کو اس کی ان صفات کے ساتھ موصوف کردیا،جن کو اس نے اپنے لئے ثابت کیاہے تو ہم نے اللہ کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دیدی،اسلئے ہم پر لازم و ضروری ہوگیا کہ اب اس کی صفات کی تأویلیں کریں یا انکو اپنی ظاہری معانی سے پھیردیں ؟آخر یہ ضرورت کیوں پیش آئی؟
[1] اجتماع الجیوش الاسلامیہ :ص ۷۷/ مختصر العلو: ص ۸۹ا