کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 98
جہاں تک قول سے رسولوں کی تصدیق کرنے کا تعلق ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
﴿لٰکِنِ اللّٰہُ یَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْکَ﴾ (النساء: ۱۶۶)
’’اللہ اس چیز کی گواہی دیتا ہے جو اس نے آپ کی طرف اتاری۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ﴾ (المنافقون: ۱) ’’اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا آپ اس کے رسول ہیں ۔‘‘
یہ تصدیق بالقول ہے۔
رہی تصدیق بالفعل، تو یہ اس کی تمکین اور اظہار آیات کی صورت میں ہوتا ہے۔ رسول لوگوں کے پاس آتا اور انہیں اسلام کی دعوت دیتا ہے، اگر وہ اسے قبول کر لیں تو بہت خوب، بصورت دیگر ان پر جزیہ عائد ہوتا ہے، اس کے لیے ان کے خون، عورتیں اور اموال مباح قرار پاتے ہیں ، اسے تمکین فی الارض سے نوازا جاتا ہے اور اس کے لیے زمین میں فتوحات کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا پیغام زمین کے شرق وغرب میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ تصدیق بالفعل کے چند مظاہر ہیں ۔ تصدیق بالفعل کے زمرے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر آیات شرعیہ اور آیات کونیہ کا اجراء فرما دیتا ہے۔ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے جو اس کے علم میں نہ ہو تو وہ خود اس کا جواب دے دیا کرتا ہے:
﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾[1] (الاسراء: ۸۵)
’’آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔‘‘
اللہ کا یہ فرمان آپ کے رسول ہونے کی تصدیق کرتا ہے، اگر آپ رسول نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب نہ دیتا۔ اسی طرح فرمایا گیا:
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ:۲۱۷)
’’وہ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس میں لڑنا کیسا ہے؟ آپ فرما دیں کہ اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے، جبکہ اللہ کے راستہ سے روکنا، اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا، اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی تصدیق کا یہ بھی ایک انداز ہے۔
رہی آیات کونیہ، تو ان کا معاملہ تو بالکل ظاہر ہے، ایسی آیات کونیہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے
[1] صحیح بخاری: ۴۷۲۱ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ادھر سے یہودیوں کا گزر ہوا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان سے روح کے بارے میں سوال کرو، پھر جب انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو آپ خاموش ہوگئے اور انہیں کوئی جواب نہ دیا، اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ آپ پر وحی کا نزول ہو رہا ہے، چنانچہ میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا، جب وحی اتر چکی تو آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔