کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 58
کچھ صفات ایسی بھی ہیں جو ذاتیہ بھی ہوتی ہیں اور فعلیہ بھی، کلام اپنے آحاد کے اعتبار سے صفت فعلیہ ہے، جبکہ اپنے اصل کے اعتبار سے صفت ذاتیہ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے تا ابد متکلم ہے لیکن وہ جو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے جیسا کہ کلام کی بحث میں آگے چل کر آئے گا۔ ان شاء اللہ! ان صفات کو، صفات فعلیہ کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فعل میں سے ہیں ، قرآن مجید میں ان کے بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّاo﴾ (الفجر: ۲۲) ’’اور آئے گا تیرا رب اور فرشتے صف در صف۔‘‘ ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ﴾ (الانعام: ۱۵۸) ’’وہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کا کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تیرا رب خود آجائے۔‘‘ ﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ (المائدۃ: ۱۱۹)’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔‘‘ ﴿وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ﴾ (التوبۃ: ۴۶) ’’لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا ناپسند کیا تو ان کو روک ہی دیا۔‘‘ ﴿اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ﴾ (المائدۃ:۸۰) ’’یہ کہ ناراض ہوا اللہ ان پر اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے صفات فعلیہ کے اثبات سے اس کیے لیے کسی بھی طرح سے کوئی نقص لازم نہیں آتا، بلکہ اس سے اس کے اس کمال کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا کرتا ہے۔ جبکہ محرفین کا کہنا ہے کہ اس سے نقص لازم آتا ہے، اسی لیے وہ جملہ صفات فعلیہ کا انکار کر دیتے ہیں ۔ ان کے بقول اللہ تعالیٰ نہ تو آتا ہے، نہ راضی ہوتا اور نہ ناراض ہوتا ہے، نہ کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور نہ ناپسند… وہ ان صفات کا اس دعویٰ کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ یہ چیزیں حادث ہیں اور حادث کا قیام حادث کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔ مگر ان کا یہ قول باطل ہے، اس لیے کہ اسے نص کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے۔ پھر یہ بنفسہ بھی باطل ہے، اس لیے کہ فعل کے حدوث سے فاعل کا حدوث لازم نہیں آتا۔ چھٹی بحث:… اسماء وصفات کے باب میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ یہ اس لیے کہ اسماء وصفات کے نفی واثبات کا دارومدار سمع پر ہے، ہماری عقلیں ذات الٰہ العالمین کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتیں ۔ جبکہ اشعریہ، معتزلہ، جہمیہ اور دیگر اہل تعطیل اس کے برعکس اسماء وصفات کے نفی واثبات کے لیے عقل پر بھروسا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں :عقل جس چیز کے اثبات کا تقاضا کرے گی اس کا اثبات ہم بھی کریں گے، چاہے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اس کا اثبات کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اور جس چیز کی وہ نفی کرے گی اس کی نفی ہم بھی کریں گے۔ اگرچہ اللہ نے اس کا اپنے لیے اثبات کیا ہی کیوں نہ ہو۔ رہے وہ امور کہ نہ تو عقل ان کے اثبات کی متقاضی ہو اور نہ نفی کی۔ تو ان کی اکثریت ان کی نفی کرتی ہے، اس لیے کہ ان کے خیال میں دلالت عقل ایجابی ہوا کرتی ہے، وہ جس صفت کا اثبات کرے گی اس کا اثبات کیا جائے گا اور جس کا نہیں کرے گی اس سے انکار کر دیا جائے گا، جبکہ کچھ لوگ توقف سے کام لیتے ہوتے اس کا اثبات نہیں