کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 57
رؤیت ہے نہ کہ حقیقت عین (آنکھ) اگر ہم یہ کہیں گے تو ہم نے اللہ تعالیٰ کا وصف اس چیز کے ساتھ بیان نہیں کیا جس چیز کے ساتھ اس نے اپنا وصف خود بیان کیا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وصف بیان کرتے ہوئے اپنے لیے دو ہاتھوں کا اثبات فرمایا: ﴿بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ (المائدۃ: ۶۴) ’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں ۔‘‘ تو اب اگر ہم یہ کہیں کہ اللہ کا حقیقتاً ہاتھ نہیں ہے بلکہ (ید) ہاتھ سے مراد اس کی نعمتیں ہیں تو کیا ہم نے اللہ تعالیٰ کی اس چیز کے ساتھ توصیف کی جس کے ساتھ اس نے خود اپنی ذات کی توصیف کی؟ ہرگز نہیں ۔ پانچویں بحث:…مؤلف رحمہ اللہ کے کلام کا عموم جملہ صفات ذاتیہ معنویہ، خبریہ اور صفات فعلیہ کو شامل ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی توصیف فرمائی ہے۔ صفات ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ تک کے لیے متصف رہے گا۔ ان کی دو قسمیں ہیں : معنویہ اور خبریہ۔ صفات معنویہ مثلاً: حیات، علم، قدرت، حکمت… اور ان جیسی دیگر صفات۔ صفات خبریہ مثلاً: دو ہاتھ، چہرہ، دو آنکھیں … اور ان جیسی دیگر صفات۔ اس کی نظیر ہمارے بعض حصے اور اجزا ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہمیشہ سے دو ہاتھ، چہرہ اور دو آنکھیں رہی ہیں ، ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو پہلے نہیں تھی اور بعد میں وجود میں آئی، اسی طرح وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، ہمیشہ سے عالم ہے اور ہمیشہ عالم رہے گا، ہمیشہ سے قادر ہے اور ہمیشہ قادر رہے گا… یعنی نہ تو اس کی حیات متجدد ہے نہ قدرت متجدد ہے اور نہ ہی اس کی سمع متجدد ہے۔ بلکہ وہ ازل سے لے کر ابد تک ان کے ساتھ موصوف ہے۔ مسموع کا تجدد سمع کے تجدد کو مستلزم نہیں ہے، مثلاً اگر میں اب اذان سنوں تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اذان سنتے وقت میرے لیے جدید سماعت حادث ہوئی بلکہ وہ تو اس وقت سے ہے جب اللہ نے اس کو مجھ میں پیدا فرمایا تھا، ہاں مسموع ضرور متجدد ہے اور اس کا صفت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ علماء کی اصطلاح میں ان صفات کو صفات ذاتیہ سے موسوم کیا گیا ہے، اس لیے کہ یہ ذات کے لیے لازم ہیں اس سے جدا نہیں ہوتیں ۔ صفات فعلیہ وہ صفات ہیں جو اس کی مشیت سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ ایسی صفات جن کا سبب معلوم ہو مثلاً رضا، جب اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا کوئی سبب وجود میں آئے گا تو وہ راضی ہوجائے گا۔ جیسا کہ فرمایا گیا: ﴿اِِنْ تَکْفُرُوْا فَاِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَاِِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ﴾(الزمر: ۷) ’’اگر تم کفر کرو گے تویقینا اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو گے تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ ۲۔ ایسی صفات جن کا سبب معلوم نہ ہو: مثلاً آخر شب میں آسمان دنیا پر نزول فرمانا۔