کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 55
وہ ان پر اسی طرح ایمان لائے جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں اور نصوص سے ہٹ کر کسی بھی دوسری چیز کی طرف رجوع نہ کرے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کو صرف انہی چیزوں کے ساتھ موصوف کیا جا سکتا ہے جن کے ساتھ خود اس نے اپنی ذات کو اپنی کتاب میں موصوف کیا ہو یا پھر اس کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام نے کیا ہو، قرآن وحدیث سے ہرگز تجاوز نہ کیا جائے۔[1] اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں انہیں چیزوں کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوصاف بیان کرنے چاہئیں جن کے ساتھ خود اس نے اپنی کتاب میں اپنے اوصاف بیان کیے ہیں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان کروائے ہیں ۔ اس پر قرآن بھی دلالت کرتا ہے اور عقل بھی، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (الاعراف: ۳۳) ’’کہہ دو کہ حرام کیا ہے، میرے رب نے بے حیائی کے کاموں کو ان میں سے جو ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرو جس کے متعلق اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے بارے میں وہ بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی صفت کے ساتھ موصوف کرنا جس کے ساتھ خود اس نے اپنے آپ کو موصوف نہ کیا ہو، اس کے بارے میں بغیر علم کے بات کرنے کے مترادف ہے، جو کہ قرآنی نص کی رو سے حرام ہے۔ اس نے فرمایا: ﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًاo﴾ (الاسراء: ۳۶) ’’اور جس کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ، یقینا کان، آنکھ اور دل، ان تمام کے تمام اعضاء سے پوچھ ہونی ہے۔‘‘ اگر ہم ان چیزوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان نہ کریں جن کے ساتھ خود اس نے اپنے اوصاف بیان نہ کیے ہوں مگر ان باتوں کے پیچھے پڑے رہیں جن کے بارے میں ہم لا علم ہیں تو اس طرح بھی ہم اللہ تعالیٰ کے منع کردہ امور میں مبتلا ہو جائیں گے۔ رہی دلیل عقلی، تو صفات باری تعالیٰ کا شمار غیبی امور میں ہوتا ہے اور عقل کے لیے غیبی امور کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہوتا، دریں صورت ہم ان چیزوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان نہیں کریں گے جن کے ساتھ اس نے خود اپنے اوصاف بیان نہ کیے ہوں اور نہ ہی ان اوصاف کی کیفیت بیان کریں گے اس لیے کہ یہ غیر ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے جو اوصاف بیان کیے ہیں ہم یہاں دنیا میں رہ کر ان کا ادراک نہیں کر سکتے اگرچہ ان کی تخلیق ہو چکی ہے۔ جن میں انگور، کھجور، حورو غلمان، پھل، تخت اور دیگر متعدد اشیاء موجود ہیں ۔ مگر ہم ان کی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر اوران کے اوصاف بیان کرنے سے عاجز و بے بس ہیں ۔ قرآن کہتا ہے:
[1] ملاحظہ ہو: ’’مجموع فتاوی شیخ الاسلام‘‘ ۵/ ۲۶۔