کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 54
نے اپنی کتاب میں اپنی ذات کا وصف بیان کیا ہے اور جس کے ساتھ اس کے رسول معظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وصف بیان کیا ہے۔‘‘ شرح:…[وَمِنَ الْاِیْمَانِ] … اس جگہ (من) تبعیض کے لیے ہے، اس لیے کہ ہم قبل ازیں بتا چکے ہیں کہ ایمان باللہ، چار امور پر مشتمل ہے، اس کے وجود پر ایمان لانا، ربوبیت والوہیت کے ساتھ اس کے منفرد ہونے پر ایمان لانا اور اس کے اسماء و صفات پر ایمان لانا۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان باللہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس چیز پر ایمان لایا جائے جس کے ساتھ اس نے اپنی ذات کا وصف بیان کیا ہے۔ [بِمَا وَصَفَ بِہِ نَفْسَہُ فِی کِتَابِہِ] … اصل میں یوں بھی کہنا چاہیے تھا: وسمی بہ نفسہ۔ مگر مؤلف رحمہ اللہ نے صرف صفت کا ذکر کیا اور یہ اس لیے کہ ہر اسم کسی نہ کسی صفت کو متضمن ہوا کرتا ہے، یا اس لیے کہ اسماء میں اختلاف برائے نام ہے، اس کا انکار صرف غالی قسم کے جہمیہ اور معتزلہ نے ہی کیا ہے، معتزلہ اسماء کا اثبات کرتے ہیں ، اگرچہ اشاعرہ اور ماتریدیہ بھی اسماء کا اثبات کرتے ہیں ، مگر وہ اکثر صفات میں اہل سنت کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں ۔ فِیْ کِتَابِہٖ کتاب سے مراد قرآن ہے، قرآن کو کتاب کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، ان صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، جو بزرگ اور نیک لکھنے والے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔ اسی طرح لوگ بھی انہیں مصاحف میں لکھا کرتے ہیں ۔ پس لفظ ’’کتاب‘‘ مکتوب کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اور یہ اس لیے کہ یہ اس کا کلام ہے۔ قرآن کلام اللہ ہے، اللہ عزوجل نے حقیقتاً اس کے ساتھ کلام فرمایا، اس نے اس کے ایک ایک حرف کے ساتھ کلام فرمایا۔ اس جملہ میں متعدد مباحث ہیں : پہلی بحث:… ایمان باللہ کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اس چیز کے ساتھ بھی ایمان لایا جائے جس کے ساتھ اس نے اپنا وصف بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان باللہ، اس کے اسماء وصفات پر ایمان لانے کو متضمن ہے، اس لیے کہ ذات باری تعالیٰ کو کئی اسماء سے موسوم کیا جاتا اور کئی اوصاف سے موصوف ٹھہرایا جاتا ہے۔ اوصاف سے مجرد ذات کا وجود امر مستحیل ہے، انسانی ذہن کبھی یہ فرض کر لیتا ہے کہ صفات سے مجرد وعاری ذات موجود ہے مگر فرض امر واقع جیسا نہیں ہو سکتا، یعنی مفروض، مشہود جیسا نہیں ہو سکتا، خارج میں ایسی کسی ذات کا وجود نہیں ہے۔ جو صفات سے متصف نہ ہو۔ انسانی ذہن کسی بھی چیز کو فرض کر سکتا اور کسی بھی چیز کے بارے میں کچھ بھی فرض کر سکتا ہے اگرچہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہ ہو، مگر جو چیز واقع ہے اس کا بدون صفت وجود میں آنا غیر ممکن ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا حصہ ہے۔ صفات باری تعالیٰ کے حوالے سے کم از کم جس بات پر لوگوں کا اتفاق ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ موجود ہے اور وہ واجب الوجود ہے۔ اس بنا پر اس کے لیے صفات کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری بحث:…صفات باری تعالیٰ امور غیبیہ کے قبیل سے ہیں اور ان امور کے حوالے سے انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ