کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 52
تقدیر سے مراد ہے: ’’اللہ تعالیٰ کا مختلف اشیاء کو مخصوص مقدار اور مخصوص طرز پر بنانا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی تقدیر آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھی۔[1] جیسا کہ اس نے فرمایا: ﴿اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo﴾ (الحج: ۷۰) ’’کیا تو نہیں جانتا کہ یقینا اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، یقینا یہ سب کچھ کتاب میں ہے۔ یقینا یہ کچھ اللہ کے لیے آسان ہے۔‘‘ خیرہ وشرہ تقدیر کو خیر کے ساتھ متصف کرنے کا معاملہ تو ظاہر اورواضح ہے۔ جہاں تک اسے شر کے ساتھ متصف کرنے کا تعلق ہے تو اس سے مراد مقدور کی شر ہے ناکہ تقدیر کی، جو کہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے جملہ افعال میں خیر وحکمت ہوا کرتی ہے، ان میں شر نہیں ہوتی، شر اس کے مفعولات اور مقدورات میں ہوتی ہے، لہٰذا اس جگہ شر مقدور اور مفعول کے اعتبار سے ہے نہ کہ فعل کے اعتبار سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شر تیری طرف نہیں ہے۔‘‘[2] اس بات کو اس طرح واضح کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سانپ، بچھو، درندے اور کئی قسم کے موذی جانور پیدا فرمائے، فقر وافلاس، قحط اور کئی بیماریاں پیدا فرمائیں ، مگر یہ سب چیزیں انسان کے حوالے سے شر ہیں ، اس لیے کہ یہ اس کے مناسب حال نہیں ہیں ، اسی طرح اس کی مخلوقات میں فسق و فجور بھی ہے، معاصی وکفر بھی اور قتل وغیرہا بھی، یہ سب چیزیں شر اور برائی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے یہ خیر ہیں ؟ اس لیے کہ اس نے انہیں کسی حکمت بالغہ کے تحت مقدر فرمایا ہے۔ جس سے کچھ لوگ واقف ہیں اور کچھ ناواقف۔ اس بنا پر ہمارے لیے اس بات سے آگاہ ہونا ضروری ہے کہ تقدیر کی برائی مقدورات کے اعتبار سے ہے نہ کہ اس تقدیر کے اعتبار سے جو کہ اللہ کا فعل اور اس کی تقدیر ہے۔ پھر اس امر سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے کہ جس مفعول کو شر سے تعبیر کیا گیا ہے وہ فی نفسہ تو شر ہوتا ہے مگر دوسری جہت سے خیر بھی ہوا کرتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے: ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo﴾ (الروم: ۴۱) ’’لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیل چکا ہے تاکہ وہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید کہ وہ (اللہ کی طرف) لوٹ آئیں ۔‘‘ اگرچہ ان کے اعمال فی حد ذاتہا برے ہیں مگر ان کا نتیجہ اچھا ہے اس بنا پر اس مقدور میں موجود شراضافی ہے نہ کہ حقیقی، اس لیے کہ اس کا نتیجہ خیر کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح زانی کی حد کا معاملہ ہے کہ اگر وہ غیر شادی شدہ ہو تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں گے اور اسے ایک سال
[1] ملاحظہ ہو: صحیح مسلم: ۲۶۵۳۔ [2] صحیح مسلم میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا ایک ٹکڑا۔ ۷۷۱۔