کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 47
’’اس کے لیے باری باری آنے والے پہرے دار فرشتے ہیں جو اس کے آگے اور اس کے پیچھے رہتے اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘
جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو آسمان میں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکوع وسجود کرتے رہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آسمان کے لیے چڑچڑانے کی آواز ہے اور اس سے چڑچڑانے کی آواز آنی ہی چاہیے آسمان میں چار انگلی کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ تعالیٰ کے لیے کھڑا نہ ہو، رکوع نہ کر رہا ہو سجدہ نہ کر رہا ہو۔‘‘[1] آسمان کی وسعت کے باوجو فرشتوں کی یہ حالت ان کی بھاری تعداد پر دلالت کرتی ہے۔
معراج کی شب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المعمور کے پاس سے گزرے تو آپ نے وہاں جو کچھ دیکھا اس کا اظہار اس طرح فرمایا: ’’سترہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں یا فرمایا: اس میں داخل ہوتے ہیں ، پھر ان کی باری دوبارہ کبھی نہیں آتی۔‘‘[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ملائکہ کی کثرت پر دلالت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِِلَّا ہُوَ﴾ (المدثر: ۳۱) ’’اور تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے۔‘‘
کچھ ملائکہ کا جنت پر اور کچھ کا جہنم پر تعین کیا گیا ہے، جہنم کے خازن کا نام مالک ہے، جہنمی کہیں گے:
﴿یَامَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ﴾ (الزخرف: ۷۷) ’’اے مالک! تیرا رب ہمارا فیصلہ ہی کر دے۔‘‘
یعنی وہ ہمیں ہلاک کر دے اور ہمیں موت دے دے۔وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا اس لیے کریں گے کہ وہ ایسے عذاب میں گرفتار ہوں گے جس پر ان کے لیے صبر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ وہ جواب دے گا:
﴿اِِنَّکُمْ مَاکِثُوْنَ ﴾ (الزخرف: ۷۷) ’’تمہیں اسی حال میں رہنا ہے۔‘‘
پھر ان سے کہا جائے گا:
﴿لَقَدْ جِئْنَاکُمْ بِالْحَقِّ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَکُمْ لِلْحَقِّ کَارِہُوْنَo﴾ (الزخرف: ۷۸)
’’ہم تمہارے پاس حق لائے تھے لیکن تم میں سے اکثر اسے ناپسند کرتے تھے۔‘‘
الغرض! ہمارے لیے فرشتوں پر ایمان لانا واجب ہے، مگر ان پر ایمان لانے کی کیفیت کیا ہوگی؟
اس حوالے سے ہمیں اس بات پر ایمان لانا ہوگا کہ فرشتوں کا تعلق عالم غیب کے ساتھ ہے جن کا عام طور پر مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، وہ نوری مخلوق ہیں ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے مختلف عبادات کا مکلف ٹھہرایا ہے اور وہ بدرجۂ اتم اس کے اطاعت گزار ہیں ۔
﴿لَا یَعْصُونَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo﴾ (التحریم: ۶)
’’وہ اللہ کے کسی بھی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘ ‘
[1] مسند احمد: ۵/ ۱۷۳۔ ترمذی: ۲۳۱۲۔ ابن ماجہ: ۴۱۹۱۔ حاکم: ۲/ ۵۱۰ اس حدیث کی البانی نے الصحیحہ میں تخریج کی ہے۔ ۱۷۲۲۔
[2] مسلم: ۱۶۲۔ من حدیث انس رضی اللہ عنہ