کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 45
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ربوبیت کو وسیلہ بناتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کرتے: ’’یااللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! تو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، چھپی اور ظاہری چیزوں کا جاننے والا ہے، تو ہی اپنے بندوں کے مابین ان چیزو ں کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے، تو اپنے حکم سے اختلافی امور میں میری راہنمائی فرما، تو جس کی چاہتا ہے اس کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرما دیتا ہے۔‘‘[1] ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان میں سے بعض فرشتے اولاد آدم کی روحیں قبض کرنے پر یا ہر ذی روح کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں ، اور وہ ہیں : ملک الموت اور اس کے اعوان وانصار، ملک الموت کو (عزرائیل) کے نام کے ساتھ موسوم نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اس نام کے ساتھ موسوم ہونا ثابت نہیں ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ہُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَo﴾ (الانعام:۶۱) ’’یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آجاتی ہے تو اسے ہمارے بھیجے ہوئے فوت کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘ اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ﴾ (السجدۃ: ۱۱) ’’کہہ دو تمہاری جان نکالتا ہے ملک الموت (موت کا فرشتہ) جو کہ تم پر مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ مزید ارشاد ہوتا ہے: ﴿اللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا﴾ (الزمر: ۴۲) ’’اللہ قبض کر لیتا ہے (لوگوں کی) روحیں ان کی موت کے وقت۔‘‘ ان تینوں آیات کے مابین کسی قسم کی کوئی منافات نہیں ہے، روحیں قبض کرنے کا فریضہ فرشتے سر انجام دیتے ہیں ۔ جب ملک الموت روح کو جسم سے نکالتا ہے تو اس وقت کچھ اور فرشتے اس کے پاس موجود ہوتے ہیں اگر فوت ہونے والا جنتی لوگوں میں سے ہو تو وہ اس پاکیزہ روح کو لے کر اسے اپنے پاس پہلے سے موجود جنت سے لائے گئے حنوط میں بساتے اور جنت سے لائے گئے کفن میں لپیٹ کر اسے اوپر کی طرف اٹھاتے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کی کتاب علیین میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو۔ پھر اسے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے تاکہ اس سے یہ امتحان لیا جا سکے؟ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور تیرا نبی کون ہے؟ اور اگر مرنے والا مومن نہ ہو تو اس کے لیے جو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ان کے ساتھ جہنم کا کفن اور جہنم کا صفوط ہوتا ہے، اس کی روح قبض کر کے اسے اس کفن میں لپیٹ دیتے ہیں اور پھر اسے ساتھ لے کر آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں ، مگر اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیئے
[1] صحیح مسلم: ۷۷۰ عن عائشہ رضی اللہ عنہا ۔