کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 399
گا۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسا جسم بنادے گا جس کا مشاہدہ کیا جائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اعمال کو بھی جسم عطا کردے گا جن کا حسی ترازو کے ساتھ وزن کیا جائے گا۔ مؤلف رحمہ اللہ کا کلام اس امر میں صریح ہے کہ جس چیز کا وزن کیا جائے گا وہ انسان کے اعمال ہوں گے، وہ اچھے ہوں یا بُرے۔ اور قرآن کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْo فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗo وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o﴾ (الزلزال:۸۔۶) ’’اس دن لوگ گروہ درگروہ نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں ، پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی تو وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘ اس آیہ کریمہ سے واضح ہو رہا ہے کہ اس دن انسان کے اعمال کا وزن کیا جائے گا، وہ اعمال اچھے ہوں یا برے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ’’کلمتان حبیبتان…‘‘ [1] بھی اسی امر میں واضح اور بالکل صریح ہے کہ جس چیز کا وزن کیا جائے گا وہ انسان کے اعمال ہوں گے۔ اس بارے میں بہت سی نصوص وارد ہیں : ان میں سے ایک نص پرزے والے شخص کے واقعہ پر مشتمل ہے، یہ وہ آدمی ہوگا جسے قیامت کے دن لوگوں کے سامنے لایا جائے گا اور ننانوے رجسٹروں میں مندرجہ اس کے اعمال اس کے سامنے رکھے جائیں گے، جن میں سے ہر رجسٹر حد نگاہ تک پہنچتا ہوگا، اور وہ ان کا اعتراف کرے گا، اس سے پوچھا جائے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے یا تو نے کوئی نیکی کی تھی؟ وہ جواب دے گا: نہیں میرے پروردگار! اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیری ایک نیکی ہمارے پاس موجود ہے اس پر ایک چھوٹا سا کاغذ کا پرزہ لایا جائے گا، جس میں لکھا ہوگا: أشہدان لا اِلٰہ الااللّٰہ وان محمدًا رسول اللّٰہ۔وہ کہے گا: میرے رب! ان رجسٹروں کے سامنے اس پرزے کی کیا اہمیت ہے؟ اس پر اس سے کہا جائے گا: یقینا تجھ پر ظلم نہیں ہوگا۔ فرمایا: اس کے بعد وہ رجسٹر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے۔ اور پر زہ دوسرے پلڑے میں ، وزن کرنے پر رجسٹر ہلکے پڑ جائیں گے اور پرزہ بھاری ہوجائے گا… الحدیث۔‘‘[2] اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ وزن اعمال کے رجسٹروں کا ہوگا۔ کچھ دیگر نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عامل کا وزن کیا جائے گا۔ مثلاً ارشاد باری ہے: ﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَـلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًاo﴾ (الکہف:۱۰۵)
[1] اس کی تخریج گزر چکی ہے۔ [2] اسے احمد (۲۱۳/۲) اور ترمذی (۲۶۳۹) نے روایت کیا اور اسے حسن کہا، اسے ابن ماجہ (۴۳۰۰) اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا (۵۲۹/۱) اور فرمایا: اس کی مسند مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور ذہبی نے ان سے موافقت کی، اور البانی نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱۳۵) میں اسے صحیح کہا۔