کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 39
[النَّاجِیَۃِ] …من نجاسے اسم فاعل ہے۔ سالم ومحفوظ رہنا، یہ گروہ دنیا میں بدعات واخرافات سے محفوظ رہتا ہے اور آخرت میں آتش جہنم سے محفوظ رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے ایک کے علاوہ باقی سب فرقے جہنم میں جائیں گے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! وہ جماعت کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جو اس مثل پر ہو جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘[1]
یہ حدیث (الناجیۃ) کے معنی کی وضاحت کرتی ہے، جو شخص اس مثل پر ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام تھے تو ایسا شخص بدعات سے محفوظ رہے گا، جب وہ دنیا میں بدعات سے محفوظ ر ہے گاتو آخرت میں دوزخ سے محفوظ رہے گا۔
[الْمَنْصُوْرَۃِ إِلٰی قِیَامِ السَّاعَۃِ ]… مؤلف نے یہ تعبیر حدیث کی موافقت میں اختیار کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا۔‘‘[2] ظہور، انتصار سے عبارت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ﴾ (الصف: ۱۴)
’’پھر ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف مدد دی تو وہ غالب ہوگئے۔‘‘
اس گروہ کی نصرت اللہ تعالیٰ کرتا ہے، اس کے فرشتے اور اہل ایمان کرتے ہیں ، قیامت قائم ہونے تک اس گروہ کی مدد کی جاتی رہے گی، رب تعالیٰ کی طرف سے بھی، ملائکہ کی طرف سے اور مومن بندوں کی طرف سے بھی، حتیٰ کہ ایسے انسانوں کی مدد جنات بھی کیا کرتے ہیں ، وہ ان کی مدد کرتے اور ان کے دشمنوں کو خوفزدہ کرتے ہیں ۔
إِلٰی قِیَامِ السَّاعَۃِ یعنی روز قیامت تک اس کی مدد کی جاتی رہے گی، اس جگہ ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت بدترین قسم کے لوگوں پر قائم ہوگی۔[3] اور وہ قائم نہیں ہوگی یہاں تک زمین میں اللہ اللہ نہیں کہا جائے گا۔[4] آپ کے اس ارشاد اور اس فرمان: ’’الٰی قیام الساعۃ‘‘ کے مابین تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے قیامت قائم ہونے کا قرب مراد ہے۔ اس لیے کہ ایک حدیث میں آپ کا یہ ارشاد مروی ہے: ’’حتی یاتی أمر اللّٰہ‘‘ یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے۔[5] یا قیام ساعت سے مراد ان کی ساعت یعنی ان کی موت ہے۔ اس لیے کہ جو کوئی مر گیا اس کی قیامت قائم ہوگئی، مگر پہلا قول زیادہ موزوں ہے۔ اور وہ یہ کہ قیامت برپا ہونے کے قریب تک ان کی مدد کی جاتی رہے
[1] ترمذی: ۲۶۴۱۔ الالکائی، شرح السنہ: ۱۴۷۔ حاکم: ۱۲۹/ ۱۔ آجری: ۱۵،۱۶۔ عبداللہ بن عمرو کی حدیث سے۔ اس کی سند میں عبدالرحمن بن زیاد افریقی راوی سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس کا شاہد موجود ہے، جسے طبرانی نے الصغیر: ۷۲۴ میں اور العقیلی نے الضعفاء: ۲۶۲/۲ میں روایت کیا ہے جس کی وجہ سے یہ حسن کے درجہ میں آجاتی ہے۔
[2] یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے مروی ہے اور متواتر حدیث ہے، اس کی تصریح شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اقتضاء الصراط: ۱/۶۹ میں کتانی نے نظم المتناثرہ: ۹۳ زبیدی نے لقط اللالیٔ المتناثرہ: ۶۸ اور البانی نے صلاۃ العیدین: (ص۴۰۔ ۳۹) میں کی ہے۔
[3] صحیح مسلم: ۲۹۴۹۔ عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ۔
[4] صحیح مسلم: ۱۴۸ عن انس رضی اللہ عنہ ۔
[5] صحیح بخاری: ۷۳۱۲۔ صحیح مسلم: ۱۹۲۰۔